021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک وارث کا آدھا مکان خریدنے پر اصرار کرنا
70919میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارا ایک وراثتی مکان ہے تقریبا ساٹھ گز کا،جس میں ہم چھ بہن بھائیوں اور والدہ کا حصہ ہے،ہم سب ورثہ اس مکان کو فروخت کرکے اس کی شرعی تقسیم کرنا چاہتے ہیں سوائے ایک بھائی محمد کاشف کے،جو یہ چاہتا ہے کہ اس مکان میں سے آدھا یعنی تیس گز ہم اسے فروخت کردیں جس میں وہ رہائش پذیر ہے اور بقیہ ہم جسے چاہیں فروخت کردیں،اس کا کہنا ہے کہ میں نہ پورا فروخت کرنے دوں گا اور نہ ہی خود پورا خرید سکتا ہوں اور مزید یہ کہ میں اس معاملے میں حق پر ہوں،پوچھنا یہ ہے کہ کیا شرعاً محمد کاشف کا کہنا درست ہے؟ یا انہیں دیگر ورثہ کے ساتھ متفق ہوجانا چاہیے؟

تنقیح: سائل سے فون پر تنقیح سے معلوم ہوا کہ یہ مکان چار کمروں پر مشتمل ہے،دوکمرے زمینی منزل پر، جبکہ دوکمرے بالائی منزل پر بنائے گئے ہیں،اوپر کے دوکمروں میں محمد کاشف،جبکہ نیچے کے دو کمروں میں سائل خود رہتا ہے،جبکہ دیگر ورثہ کی رہائش الگ ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب تمام ورثہ کی چاہت یہ ہے کہ اس مکان کو بیچ کر اس کی قیمت کو باہم شرعی حصوں کو مطابق تقسیم کرلیا جائے تو اخلاقی طور پر محمد کاشف کے لیے اس میں رکاوٹ بن کر بقیہ ورثہ کے لیے تکلیف اور مشکلات کا سبب بننا مناسب نہیں،بلکہ اسے چاہیے کہ یا تو پورا مکان خریدلے اور یا دیگر ورثہ کے ساتھ متفق ہوکر پورے کو فروخت کردے،تاہم اگر فی الحال وہ پورا مکان لینے کی استطاعت نہیں رکھتا تو ورثہ کا بھی اخلاقی طور پر یہ فرض بنتا ہے کہ مکان کی آدھی قیمت اس سے نقد لے لیں اور بقیہ آدھی رقم کے بندوبست کے لیے اسے کچھ وقت دے دیں۔

لیکن جب تک محمد کاشف ان دونوں باتوں میں سے کسی ایک بات پر راضی نہیں ہوتا ورثہ اس مکان میں سے اپنے حصوں کو نہیں بیچ سکتے،کیونکہ اس کی وجہ سے محمد کاشف کو ضرر ہوگا،البتہ محمد کاشف کا اس مکان میں شرعی حصہ ٪666ء11 بنتا ہے،جو کہ تقریباً چھٹےحصے کے برابر ہے،جبکہ وہ آدھے مکان میں رہائش پذیر ہے،لہذا اس کے ذمے لازم ہے کہ اپنے حصے سے زائد جگہ کا کرایہ دیگر ورثہ کو اداء کرے جو اس مکان میں نہیں رہتے۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (6/ 261):
دار أو حانوت بين اثنين لا يمكن قسمتها تشاجرا فيه فقال أحدهما لا أكري ولا أنتفع، وقال الآخر أريد ذلك أمر القاضي بالمهايأة، ثم يقال لمن لا يريد الانتفاع إن شئت فانتفع، وإن شئت فأغلق الباب".
"الدر المختار" (4/ 300):
"(وكل) من شركاء الملك (أجنبي) في الامتناع عن تصرف مضر (في مال صاحبه) لعدم تضمنها الوكالة (فصح له بيع حصته ولو من غير شريكه بلا إذن إلا في صورة الخلط) لماليهما بفعلهما كحنطة بشعير وكبناء وشجر وزرع مشترك قهستاني، وتمامه في الفصل الثلاثين من العمادية".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" قلت: ومثل الخلط والاختلاط بيع ما فيه ضرر على الشريك، أو البائع أو المشتري، كبيع الحصة من البناء أو الغراس، وبيع بيت معين من دار مشتركة كما يأتي تحريره".
"الدر المختار " (4/ 302):
"ولو كانت الدار مشتركة بينهما باع أحدهما بيتا معينا أو نصيبه من بيت معين فللآخر أن يبطل البيع.
وفي الواقعات: دار بين رجلين باع أحدهما نصيبه لآخر لم يجز؛ لأنه لا يخلو إما إن باعه بشرط الترك أو بشرط القلع أو الهدم.
أما الأول فلا يجوز لأنه شرط منفعة للمشتري سوى البيع فصار كشرط إجارة في البيع، ولا يجوز بشرط الهدم والقلع لأن فيه ضررا بالشريك الذي لم يبع".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ:" (قوله فللآخر أن يبطل البيع) كذا في غالب كتب المذهب معللين بتضرر الشريك بذلك عند القسمة إذ لو صح في نصيبه لتعين نصيبه فيه، فإذا وقعت القسمة للدار كان ذلك ضررا على الشريك إذ لا سبيل إلى جمع نصيب الشريك فيه والحال هذه؛ لأن نصفه للمشتري ولا جمع نصيب البائع فيه لفوات ذلك ببيعه النصف".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

18/جمادی الاولی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب