021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک وارث کادوسرےوارث کےلیے ادارے سے اپنے مکان کا کرایہ وصول کرنے میں رکاوٹ بننا
70921میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارا ایک وراثتی مکان ہے،جس میں چھ بہن بھائی اور والدہ حصہ دار ہیں،میں ایک وفاقی سرکاری ادارے میں ملازم ہوں اور ہمارا ادارہ یہ سہولت دیتا ہے کہ میں کوئی مکان کرایہ پر لے لوں،ادارہ اس کا کرایہ مجھے دے گا،یا پھر میں اپنے مکان کا کرایہ ادارے سے وصول کرلوں،جسے Self hiring کا نام دیا جاتا ہے،البتہ دوسری صورت میں یہ شرط ہے کہ مکان کے دیگر شرکاء مجھے کرایہ کی رقم وصول کرنے اور دیگر تصرفات کے لیے پاور آف اٹارنی دے دیں۔

ادارے نے میرے لیے یہ سہولت منظور کرلی ہے اور بقیہ ورثہ نے مجھے اسپیشل پاور آف اٹارنی بھی دے دی ہے،صرف محمد کاشف اس پر متفق نہیں ہے،جبکہ میں محمد کاشف کو ملنے والے کرایہ میں سے اس کا حصہ دینے پر بھی آمادہ ہوں اور وہ خود بھی میرے ساتھ اس مکان میں رہائش پذیر ہیں،ان کا کہنا ہے کہ یہ دستاویز اس مقصد کے استعمال کرنا شرعی طور پر درست نہیں ہے،مجھے اس کے جواز کا فتوی لاکر دو۔

لہذا سوال یہ ہے کہ میرا ایسا کرنا اوردیگر تمام ورثہ کا مجھے یہ پاور دینا درست ہے یا نہیں؟جبکہ میرے اپنے اور تمام وفاقی اور صوبائی حکومتی اداروں میں یہی طریقہ کار استعمال ہورہا ہے۔

تنقیح: سائل سے فون پر تنقیح سے معلوم ہوا کہ جس مکان کا وہ ادارے سے کرایہ منظور کروانا چاہتے ہیں،اس مکان میں فی الحال وہ خود اور محمد کاشف رہائش پذیر ہے،بقیہ ورثہ الگ رہتے ہیں،سائل نے انہیں یہ کہا ہے کہ ادارے کی جانب سے جو کرایہ منظور ہوگا وہ اس میں سے دیگر ورثہ کو ان کا حق دے گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ اپنا مکان ہونے کی صورت میں کرایہ وصول کرنے کے لیے مذکورہ طریقہ کار اختیار کرنا آپ کے ادارے کے اصول و ضوابط کے مطابق ہے اور اس میں کسی قسم کی غلط بیانی اور دھوکہ نہیں ہے،اس لیے اس دستاویز کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں،بلکہ محمد کاشف کا بلاوجہ آپ کو یہ اختیار دینے سے انکار کرنا شرعا درست نہیں۔

نیز جس مکان کا آپ اپنے ادارے سے کرایہ وصول کریں گے،اس کرایہ میں سے ان ورثہ کو حصہ دینا آپ پر لازم ہوگا جو آپ کے ساتھ اس مکان میں رہائش پذیر نہیں ہیں،لیکن اگر وہ آپ سے اپنے حصے کا کرایہ نہ لینا چاہیں اور تبرُّعاً آپ کو مکان میں رہنے دیں تو پھر آپ کے لیے ان کے حصے کا کرایہ استعمال میں لانا جائز ہوگا۔

چونکہ اس مکان کے آدھے حصے میں محمد کاشف آپ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں،جو اس کےوراثتی حصے کے تناسب سے زیادہ بنتا ہے،اس لیے شرعی لحاظ سے اسے اس بات کے مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ آپ کو ادارے کی جانب سے ملنے والے کرایہ میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کریں،بلکہ ان پر لازم ہے کہ مکان میں اپنے وراثتی حصے سے زیادہ حصے کا کرایہ دیگر ان ورثہ کو دیں جو اس مکان میں نہیں رہتے،البتہ اگر وہ نہ لینا چاہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں،بلکہ ان کے لیے صلہ رحمی کی وجہ سے باعثِ اجر و ثواب ہے۔

حوالہ جات
"مجلة الأحكام العدلية "(ص: 207):
"(المادة 1077) لو أجر أحد الشريكين المال المشترك لآخر وقبض الأجرة يعطي الآخر حصته منها ويردها إليه".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

18/جمادی الاولی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب