021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کااختیارصرف مردکوکیوں دیاگیاہے؟
71163طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

 کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ نکاح مرداورعورت دونوں کی رضامندی سے ہوتاہے،پھرخاوندکو ہی طلاق کاحق اسلام میں کیوں دیاگیاہے؟مرد صرف چندمنٹ میں کاغذپرلکھ کربیوی کوبغیرکسی وجہ کے فارغ کردیتاہے اوراس وجہ کوثابت کرنے کاوہ پابندنہیں ہوتا اوربغیرثبوت کے وہ طلاق کامالک ہوتاہے،کیایہ ناانصافی نہیں ہے اسلام میں؟

بیوی اگرشوہرسے خلع کامطالبہ کرتی ہے اورشوہردینے پرآمادہ نہیں تواس صورت میں  عورت کوعدالت میں الزام ثابت کرناپڑتاہے پھرعدالت کےذریعہ طلاق ہوتی ہےایساکیوں ہے؟

آپ کی معلومات کیلئے بتادیتاہوں کہ پاکستان کاموجودہ فیملی کورٹ قانون میں 2002 میں پرویزمشرف نے   ترمیم  کی تھی ،جس کی وجہ سےآج فیملی کورٹ میں بیوی صرف خاوندپرالزامات لگاکرخلع کی ڈگری لے سکتی ہے اورجج  بغیرکسی ثبوت کے طلاق دے سکتاہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ اعتراض سب سے پہلے نظام فطرت پرہوتاہے کہ ایک انسان کومرد اورایک کوعورت کیوں پیداکیاگیا،جبکہ عورت مردکے لحاظ سے کئی حوالوں سے فطری طورپرکمزورہے،اسی طرح حمل اوربچہ پیداکرنے کامشکل عمل صرف عورت پرہی کیوں ڈالاگیا،مرد اورعورت دونوں پرکیوں نہیں ڈالاگیا،مرد اورعورت کے اعضاء میں فرق  کیوں کیاگیا۔۔۔۔ یہ سب اعتراضات ہیں،لیکن ہم انسان فطرت کونہیں بدل سکتے،ہماری عقل یہ بتاتی ہے کہ فطرت نہیں بدلے گی،اس لئے خالق کائنات نے  فطرت کے اصولوں کے مطابق انسان کے رہن سہن اورذمہ داریوں کانظام اتاراہے،جس کی فطری صلاحیتیں زیادہ ہیں اس پرذمہ داریاں بھی زیادہ ڈالی گئی ہیں اوراختیارات بھی زیادہ دئیے گئے ہیں،یہی دنیاکااصول ہے کہ جس کی صلاحیت جتنی زیادہ ہوتی ہے اس کی ذمہ داریاں اوراختیارات زیادہ ہوتے ہیں۔

 نیزکسی انسان کادوسرے انسان کے دائرہ اختیارمیں ہوناظلم نہیں،جیسے کسی بھی ریاست کے عوام بشمول مردوزن حکام بالا کے اختیارات کے ماتحت ہوتے ہیں،یہ نہ کسی کے ساتھ ظلم ہے نہ کسی کی توہین۔خاندان بھی ایک چھوٹی ریاست ہے جیسے لازماسربراہ کی ضرورت ہے،سربراہی میں سب کوشریک نہیں کیاجاسکتا،کیونکہ یہ ایک احقمانہ سوچ ہے،لہذاخاندان کاسربراہ بھی  ایک ہوسکتاہے،سب نہیں۔

 مردکوبراہ راست طلاق کاغیرمشروط اختیاردینا مرد کے مزاج،طبعیت  اورعقلی صلاحیتوں کے مطابق ہے،کیونکہ عقل تقاضاکرتی ہے کہ اختیارات ذمہ داریوں کے مطابق حاصل ہوں یعنی جس کی ذمہ داری زیادہ ہے تواس کے اختیارات بھی زیادہ ہوں،نکاح میں مردکی ذمہ داریاں عورت کے مقابلہ میں زیادہ ہیں،کیونکہ عورت کے نان ونفقہ اوررہائش وغیرہ کے انتظامات مرد کے ذمہ ہیں،ذمہ داری کے زیادہ ہونے کی وجہ سےمرد کوطلاق کااختیاربھی دیاگیاہے۔

اسی طرح خلع میں بھی شریعت نے ان فطری عوامل کی وجہ سے مردکی رضا کوشامل کیاہے،اگر اس کوعورت کے اختیار پرچھوڑدیاجائے توعورت کی انفعالی طبعیت کی وجہ سے خاندانی نظام تباہ ہوجائےگا،اس کااندازہ مغربی معاشرہ سے بخوبی لگایاجاسکتاہے جہاں فیملی نظام تباہی کاشکارہے،جس کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ دونوں کوطلاق کااختیاردیناہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ مرد کو بھی بلاوجہ طلاق دینے سے منع کیاگیاہے اوراگروہ بغیرکسی وجہ کے طلاق دیتاہے تووہ شرعی طورپرمکروہ عمل کامرتکب ہوتاہے ۔

پاکستان میں موجودہ فیملی قانون کایہ حصہ شرعی اعتبارسے درست نہیں ،اس لئےیہ آئین کی اٹل شقوں کے مخالف ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہے اوراگرکوئی عدالت اس کے مطابق یک طرفہ فیصلہ کربھی دے توشرعی وآئینی  طورپراس کااعتبارنہیں۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔

محمد اویس بن عبدالکریم

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

03/06/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب