021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پانچ میتوں کے درمیان مناسخہ کا حکم
71033میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

فیاض حسین کا انتقال ہوا ۔ ان کا ایک مکان ہے ۔ان کے ورثاء میں ایک بیوہ ،پانچ بیٹے اورپانچ  بیٹیاں تھیں  ۔ کچھ عرصے کے بعد ایک بیٹا (اسرار حسین ) انتقال کرگیا ۔ان کےورثاء میں  7 بیٹے ،2 بیٹیاں  ، ایک بیوہ اور ایک والدہ  ہیں ۔ پھر مرحوم کی  بیوی  کا انتقال ہوگیا ،پھر ایک بیٹی (مہرالنساء ) کا انتقال ہوگیا ۔ان کی ورثاء میں 3 بیٹے اور 6 بیٹیاں ہیں۔  پھر ایک اور بیٹے(انیس حسین ) کا انتقال ہوگیا ۔ان کے ورثاء میں 3 بیٹے اور 1 بیٹی ہے ۔  قرآن وحدیث کی روشنی میں حصوں کی تقسیم کس طرح ہوں گی۔ جواب عنایت فرماکر ممنون  فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔آپ کے دادا  مرحوم(فیاض حسین ) نے بوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں بشمول اس گھر کے  جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑاتھا اور مرحوم کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب الاداء  تھا، يہ  سب مرحوم کا ترکہ تھا۔ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں ،البتہ اگر کسی نے بطور احسان  ادا کر دیئے ہوں تو پھر یہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کے بعد مرحوم کا  وہ قرض  ادا کیا جائے  جس کی ادئیگی مرحوم کے ذمہ  واجب تھی ۔ اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی تھی  تو بقیہ ترکہ  میں سے ایک تہائی(1/3) کی حد  تک اس پر عمل کیا جائے۔اس کے بعد جو ترکہ باقی بچے   اس کو کل ایک سو بیس (120) حصوں میں تقسیم کرکے ہر بیٹے کو چودہ  حصے ، ہر بیٹی کو سات حصےاور بیوی کوپندرہ حصے دے دیے جائیں، تقسیم ِ میراث کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں:

نمبر شمار

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیوی(آپ کی دادی )

15

12.5%

2

بیٹا(انتظار حسین )

14

11.6667%

3

  بیٹا(ابصار حسین )

14

11.6667%

4

  بیٹا(اسرار حسین )

14

11.6667%

5

بیٹا(شاہد حسین )

14

11.6667%

6

بیٹا(انیس حسین )

14

11.6667%

7

بیٹی ( مہرالنساء)

7

5.8333%

8

بیٹی (مبین )

7

5.8333%

9

بیٹی(مسرت)

7

5.8333%

10

بیٹی (انیسہ )

7

5.8333%

11

بیٹی (ناصرہ )

7

5.8333%

 

کل

120

100%

2۔ اس کے بعد جب مرحوم کے بیٹے (اسرار حسین ) کاانتقال ہوا تو انہوں  نے مرحوم کی وراثت میں سے ملنے والے 14 حصوں سمیت اپنی ملکیت میں بوقتِ انتقال جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا تھا اور مرحوم کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب ہو،یہ سب مرحومہ کا ترکہ ہے۔ اس میں سے مرحوم  کے تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے ، مرحوم کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس کو  384 حصوں میں برابر تقسیم کرکے مرحوم کی بیوی کو 48 حصے ،مرحوم کی والدہ کو 64 حصے ،ہر بیٹے کو34  اور ہر بیٹی کو17 حصہ  دیے جائیں ۔ تقسیمِ میراث کا نقشہ یہ ہے:

نمبر شمار

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیوی

48

12.5%

2

پہلا بیٹا

34

8.8541%

3

دوسرا بیٹا

34

8.8541%

4

تیسرا بیٹا

34

8.8541%

5

چوتھا بیٹا

34

8.8541%

6

پانچواں بیٹا

34

8.8541%

7

چھٹا بیٹا

34

8.8541%

8

ساتواں بیٹا

34

8.8541%

9

پہلی بیٹی

17

4.4270%

10

دوسری بیٹی

17

4.4270%

11

مرحوم کی والدہ

64

16.6667%

 

کل

384

100%

3۔ اس کے بعد جب مرحوم کی بیوی کاانتقال ہوا تو انہوں نے  اپنے مرحوم شوہر کی وراثت میں سے ملنے والے 15 حصوں اور اپنے بیٹے اسرار حسین کی وراثت میں سے ملنے والے 64 حصوں  سمیت اپنی ملکیت میں بوقتِ انتقال جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا ہےاور مرحومہ کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب ہو،یہ سب مرحومہ کا ترکہ ہے۔ اس میں سے مرحومہ کے تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے ، مرحومہ کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس کو13 حصوں میں برابر تقسیم کرکے ہر بیٹے کو دو  اور ہر بیٹی کو ایک  حصہ  دیا جائے۔واضح رہے کہ اس صورت میں مرحومہ کے انتقال سے پہلے جس بیٹے کا انتقال ہوگیا ،ان کو یا ان کی اولاد کو مرحومہ کی وراثت میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔

4۔ اس کے بعد جب مرحوم فیاض حسین کی بیٹی (مہرالنساء ) کا انتقال ہوا تو انہوں نے  اپنے مرحوم والد  کی وراثت میں سے ملنے والے 7 حصوں اور اپنی مرحوم والدہ کی وراثت میں سے ملنے والے ایک حصے   سمیت اپنی ملکیت میں بوقتِ انتقال جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا ہےاور مرحومہ کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب ہو،یہ سب مرحومہ کا ترکہ ہے۔ اس میں سے مرحومہ کے تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے ، مرحومہ کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس 12 حصوں میں برابر تقسیم کرکے ہر بیٹے کو دو  اور ہر بیٹی کو ایک  حصہ  دیا جائے۔

5۔ اس کے بعد جب مرحوم کے بیٹے (انیس  حسین ) کاانتقال ہوا تو انہوں  نے اپنے مرحوم والد  کی وراثت میں سے ملنے والے 14 حصوں اور اپنی مرحوم والدہ کی وراثت میں سے ملنے والے دو حصوں   سمیت اپنی ملکیت میں بوقتِ انتقال جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا تھا اور مرحوم کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب ہو،یہ سب مرحومہ کا ترکہ ہے۔ اس میں سے مرحوم  کے تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے ، مرحوم کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس کو  7 حصوں میں برابر تقسیم کرکے مرحوم کے ہر بیٹے کو 2 حصے اور بیٹی کو ایک حصہ  دے دیا جائے  ۔

حوالہ جات
القرآن الکریم [النساء: 11]
{ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ }
{ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْن}
القرآن الکریم[النساء: 12]
{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ }
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 774)
 وبعد اتحاد الجهة والقرابة يعتبر الترجيح بالقوة، فيقدم الأخ الشقيق على الأخ لأب، وكذا أبناؤهم۔

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

26 جمادی الاولی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب