021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کسی مسلمان مرد یا عورت پر کردارکے حوالےسے الزام لگانےیاسننےکا حکم
71179حدود و تعزیرات کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کسی مسلمان مرد یا عورت کے کردار کے حوالے سےکوئی الزام لگانا ،آگے بیان کرنا اور سننا کیسا ہے؟ اور اگر کوئی تیسرا شخص آپ کے سامنے کوئی  ایساالزام لے کر آئے جس کے سچ یا جھوٹ ہونے کا علم آپ کو نہ ہو تو جواب میں یہ کہنا کہ "یہ صریح جھوٹ ہے۔ "درست ہے؟ سورۃ نور کی آیت نمبر 12 کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی مسلمان مرد یا عورت  پر صریح زنا یا بد کاری کی تہمت / الزام لگانا بہت بڑا گناہ ہے۔جو شخص خودیا کسی دوسرے سے سن کر ایسا الزام لگائےیا دہرائے اور اپنی بات پر شرعی گواہی پیش نہ کرسکےتو ایسے شخص کی سزا اسی کوڑے ہیں اور اگر زنااور بدکاری کا صریح الزام نہ لگائے،بلکہ صرف ناجائز تعلقات  کا الزام لگائے تویہ بھی حرام ہے، اور اس کی سزا تعزیر (حاکم وقت کی تجویز کے مطابق کوئی بھی مناسب سزا) ہے،اسی طرح ان دونوں قسم کے الزامات کو بلاضرورت آگے نقل کرنا اوربالقصد سننا بھی غیبت ہونے کی وجہ سے حرام ہے،لہذا اگر کسی ضرورت سے آگےبیان کرے یا سنے،مثلاالزام سے آگے نقل یابیان کرنے والے یا سننے والے کی کوئی ذمہ داری متعلق ہو، جیسے حاکم ،قاضی (جج)،سرپرست، یا تفتیشی اہلکار اور گواہ وغیرہ یا کسی کے جان یا عزت کو ضرر ونقصان کا خطرہ ہے تو ایسی صورت میں ضرورت کی حد تک اس طرح کے الزام   کوآگے نقل کیا اورسناجاسکتا ہے،لیکن ثبوت کے بغیریقین کرنا صحیح نہیں،اوراگر سننے یا بیان کرنے والےکا کوئی  تعلق نہیں ہےتوکسی کے خلاف اس قسم کی باتیں سننا یا بیان کرنا جائز نہیں،بلکہ غیبت ہونے کی وجہ حرام اور ناجائز ہیں اور ان پر یقین کرنا اس سے بھی زیادہ گناہ اور قبیح عمل ہے،البتہ اگراس قسم کی بلا دلیل الزامات اورباتیں بلا قصد کان میں پڑ جائیں اور سنی جائیں توایسی صورت میں ان کے سننے سے گناہ تو نہیں ہوگا،لیکن ان کی فوری تردید واجب اور ضروری ہے،اس لیے کہ ہر مسلمان مر دوعورت کے بارے میں اچھا گمان رکھناشرعاواجب ہے اورجب تک ایسے کسی الزام کا ثبوت کسی قطعی دلیل مثلا اقرار،مشاہدہ یا شرعی شہادت سے ثابت نہ ہو ایسی بات کو جھوٹ کہنا نہ صرف یہ کہ درست ہے،بلکہ اس طرح کے الزام کی تردید واجب بھی ہے،جیساکہ سورہ نورکی آیت نمبر 12 کی روشنی میں علماء تفسیر نے ایسا ہی لکھا ہے۔

بغیر کسی ثبوت کے اس قسم کی خبروں کو آگے چلتا کردینے اور شہرت دینے سے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں سے بے حیائی اور فواحش کی نفرت کم اور جرائم کے اقدام کی جراءت زیادہ نہ ہوجائے، جیساکہ اس حکم کے پامالی کا مشاہدہ آج کل اخبارات وذرائع نشروابلاغ میں روزرانہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی خبریں ہر روز اخبار ودیگر ذرائع نشرو ابلاغ میں نہایت کثرت سے نشر ہوتی رہتی ہیں، نوجوان مرد اور عورتیں ان کو دیکھتے رہتے ہیں،روزانہ ایسی خبروں کے سامنے آنے اور اس پر کسی خاص سزا کے مرتب نہ ہونے کا لازمی نتیجہ اور طبعی اثر یہ ہوتا ہے کہ دیکھتے دیکھتے وہ خبیث فعل نظروں میں ہلکا نظر آنے لگتا ہے اور پھر نفس میں ہیجان پیدا کرنے کو موجب ہوتا ہے۔( ماخوذ ازمعارف القرآن:ج۶،ص۳۷۷،۳۸۰)

حوالہ جات
التفسير المظهري (6/ 476)
(مسئلة) من ههنا يظهران حسن الظن بالمؤمنين واجب لا يجوز تركه ما لم يظهر بدليل شرعى خلاف ذلك.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 46)
(قوله بصريح الزنا) بأي لسان كان شرنبلالية وغيرها.
واحترز عما لو قال وطئك فلان وطئا حراما أو جامعك حراما فلا حد بحر، وكذا لو قال فجرت بفلانة أو عرض فقال لست بزان كما في الكافي، وفيه: وإن قال قد أخبرت بأنك زان أو أشهدني رجل على شهادته إنك زان، أو قال اذهب فقل لفلان إنك زان فذهب الرسول فقال له ذلك عنه لم يكن في شيء من ذلك حد
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 48)
(قوله ولو المقذوف غائبا إلخ) ذكر هذا التعميم في التتارخانية نقلا عن المضمرات واعتمده في الدرر وقال: ولا بد من حفظه فإنه كثير الوقوع منح.
قلت: ولعله يشير إلى ضعف ما في حاوي الزاهدي: سمع من أناس كثيرة أن فلانا يزني بفلانة فتكلم ما سمعه منهم لآخر مع غيبة فلان لا يجب حد القذف؛ لأنه غيبة لا رمي وقذف بالزنا؛ لأن الرمي والقذف به إنما يكون بالخطاب كقوله يا زاني أو يا زانية۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۷جمادی الثانیۃ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب