021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسٹیٹ بینک میں ملازمت کا حکم
71272سود اور جوے کے مسائلمختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ:

ایک بندہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ملازمت کرتا ہے جو منیجر کے عہدہ پر فائز ہے اور ریٹائرمنٹ سے قبل وفات پا چکا ہے ،جبکہ اس کے گھروالوں کو اب بھی اس کی تنخواہ مل رہی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ملازمت کرنا ٹھیک ہے یا نہیں ؟ اگر جائز نہیں تو جو تنخواہ لے چکے ہیں اور جو لے رہے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

شریعت کی رو سے رہنمائی فرما کر ثواب دارین کے مستحق ٹہریئے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر ان کی ملازمت کسی ایسے شعبے میں نہ تھی جو براہ راست سودی معاملات سے متعلق ہو تو ان کی ملازمت حلال تھی اور تنخواہ  و   پینشن لینا بھی جائز ہے۔ اگر براہ راست سودی معاملات کی ذمہ داری ہو تو صرف   پینشن حلال ہوگی۔

حوالہ جات
قال شیخ الإسلام المفتی محمد تقی العثمانی دامت برکاتھم : فإن کانت الوظیفۃ تتضمن مباشرۃ العملیات الربویۃ ،أو العملیات المحرمۃ الأخری ،فقبول ھذہ الوظیفۃ حرام ،وذلک مثل : التعاقد بالربا أخذا ، أو عطاء ، أو حسم الکمبیالات ،أو کتابۃ ھذہ العقود ....... فإن الإدارۃ مسؤلۃ عن جمیع نشاطات البنک التی غالبھا حرام ، ومن کان مؤظفا فی البنک بھذا الشکل ،فإن راتبہ الذی یأخذ من البنک کلہ من الأکساب المحرمۃ .أما إذا کانت الوظیفۃ لیس لھا علاقۃ مباشرۃ بالعملیات الربویۃ،مثل وظیفۃ الحارث ،أو سائق السیارۃ .....أو تحویلھا من بلد إلی بلد ،فلا یحرم قبولھا إن لم یکن بنیۃ الإعانۃ علی العملیات المحرمۃ ، وإن کان الاجتناب عنھا أولی ، ولا یحکم فی راتبہ بالحرمۃ .(فقہ البیوع:2/1032)
وقال فی تکملۃ فتح الملھم : روی الإمام المسلم رحمہ اللہ  عن عبد اللہ ،قال : لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربا ، ومؤکلہ ،قال : قلت: وکاتبہ وشاھدیہ؟ قال : إنما نحدث بما سمعنا .قولہ : (وکاتبہ) : لأن کتابۃ الربا إعانۃ علیہ ،ومن ھنا ظھر أن التوظف فی البنوک الربویۃ لا یجوز ، فإن کان عمل الموظف فی البنک ما یعین علی الربا ،کالکتابۃ أو الحساب ،فذلک حرام لوجھین :الأول:إعانۃ علی المعصیۃ ،والثانی : أخذ الأجرۃ من المال الحرام  .ثم قال : فإذا وجد بنک معظم دخلہ حلال ،جاز فیہ التوظف للنوع الثانی من الأعمال ، واللہ أعلم .( تکملۃ فتح الملھم : 1/575)
قال العلامۃ نظام الدین رحمہ اللہ : لا یجوز ھدیۃ أمراء الجور ؛لأن الغالب فی مالھم الحرمۃ إلا إذا علم أن أکثر مالہ حلال ،بأن کان صاحب تجارۃ ، أو زرع فلا بأس بہ ؛لأن أموال الناس لا تخلو عن قلیل حرام فالمعتبر الغالب .(4/167)

سردارحسین

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

12/جمادی الثانیۃ/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سردارحسین بن فاتح رحمان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب