021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آڑھتی سے قرض لینا
71608جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زمیندار اور کسان فصل کی ضروریات کے لیے آڑھتی سے قرض لیتے ہیں اور یہ وعدہ کرتے ہیں کہ جب پیداوار تیار ہوجائے گی تو ہم آپ کے پاس بھیج دیں گے۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اس طرح قرض لینا جائز ہے یا نہیں ؟نیز کیا زمیندار اپنی پیداوار اس مقرض آڑھتی کے علاوہ کسی اور کے پاس بھیج سکتا ہے۔؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگر آڑھتی قرض کی وجہ سے  پیداوار بازاری قیمت سے کم پر نہیں خریدتاہے ،نیز کسان کی طرف سے محض وعدہ ہو ،آڑھتی کی طرف سے اس وعدے کو باقاعدہ شرط نہ سمجھاجاتا ہو تو اس طرح   قرض کا لین دین جائز ہے۔لیکن اگر وہ کسان کو قر ض دینے کی وجہ سے پیداوار بازار کی قیمت سے کم پر خریدتا ہے یا بعد میں پیداوار اسی کو فروخت کرنے پر مجبور کرتا ہے تو اس صورت میں قرض کا یہ معاملہ قرض بالشرط  کے زمرے میں آتاہے جو شبہ ربو کی وجہ سے  ناجائز ہے۔ باقی جب کسان صرف یہ وعدہ کرتا ہوکہ وہ اپنی پیداوار فروخت کرنے کے لیے  صرف اسی آڑھتی کے پاس  آپ کے پاس لائے گا تو ایسے میں اس کے لیے بلا عذر وعدے کی خلاف ورزی کرنا جائز نہیں ہے۔تاہم اگراس نے کسی اور کے پاس اپنی پیداوار فروخت کرنے کے لیے بھیج دی تو  اگریہ کسی عذر کی وجہ سے ہو تو اس کو گناہ نہ ہوگااور اگر بلاعذر ہو تو اس کا یہ معاملہ تو درست ہوگا ،لیکن اس کو وعدے کی خلاف ورزی کا گنا ہ ہوگا۔

 

حوالہ جات
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ :َ(وأما ) الذي يرجع إلى نفس القرض : فهو أن لا يكون فيه جر منفعة ، فإن كان لم يجز ، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة ، على أن يرد عليه صحاحا ، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة ؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه { نهى عن قرض جر نفعا } ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا ؛ لأنها فضل لا يقابله عوض ، والتحرز عن حقيقة الربا ، وعن شبهة الربا واجب.(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (ج 17 / ص 423)

زین الدین

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۱۱/جمادی الثانیۃ    ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زین الدین ولد عبداللہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب