021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کے لیے وقف زمین خریدنا
71700وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ہمارے دادا جان نے کافی عرصہ پہلے کچھ زمین خریدی تھی، اس کے آدھے حصے پر اپنا گھر اور آدھے پر مسجد تعمیر کی تھی۔ وہ خود اسی مسجد کے امام اور متولی رہے۔ دادا جان کے انتقال کے بعد ہمارے چچا اسی مسجد کے نگران اور امام رہے۔ سن 2013 ء ہمارے چچا نے کسی بیماری اور عذر کی وجہ سے مسجد کی امامت چھوڑ دی تھی۔ ابھی میرے والد صاحب مسجد کے نگران ہیں، مسجد کی امامت کے لیے والد صاحب نے ایک اور امام صاحب کو رکھا ہوا ہے، باقی مسجد کے انتظام کے سارے انتظامات واختیارات میرے والد صاحب کے پاس ہیں۔ بندہ خود یہ ارادہ رکھتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی مسجد کی خدمت کرے اور امامت کے فرائض سر انجام دے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مسجد کی تعمیر کے بعد اسی مسجد کے لیے وقف شدہ زمین کا کچھ حصہ خالی پڑا تھا، پہلے اس پر استنجاء اور وضو خانے تھے، پھر اس کو دوسری جگہ منتقل کیا۔ ہمارا گھر مسجد سے متصل ہونے کی وجہ سے ہم نے اس سے 60×4 فٹ حصے کو اپنے گھر میں شامل کر کے اس پر کمرے تعمیر کیے اور استعمال کرتے رہے۔ اب محلے والوں کا ارادہ ہے کہ مسجد کو از سر نو تعمیر کیا جائے، ہمیں بھی ابھی خیال آیا کہ یہ تو مسجد کی زمین ہے۔ مگر اس حصے کو خالی کرنے سے ہمارا گھر بہت چھوٹا ہو جائے گا، جس کی وجہ سے ہمارے لیے اس میں رہنا ناممکن ہو جائے گااور اس گھر/مکان کو بیچنا پڑے گا جو کہ ہم نہیں چاہتے، تاکہ ہم  مسجد کے قریب ہوں۔کیا ہم اس زمین کو مسجد سے خرید سکتے ہیں؟ یا کوئی اور صورت؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کوئی بھی قطعہ زمین ایک بار وقف ہو جائے، اس کے بعد اس زمین کی کسی بھی قسم کی خرید وفروخت جائز نہیں۔

وقف شدہ زمین کا کچھ حصہ نماز پڑھنے کے لیے مختص ہوتا ہے، جبکہ کچھ حصہ وہ ہوتا ہے جو مسجد کے اطراف میں ہوتا ہے،جس پر وضو خانے وغیرہ بنائے جاتے ہیں، وہ حصہ بھی ہمیشہ کے لیے وقف ہی رہےگا اور مسجد کی ملکیت ہوگا، اس سے مسجد کی ضروریات پوری کی جائیں گی، یہ الگ سے کوئی چیز نہیں ہے۔

لہذا اگر مسجد کو توسیع کی ضرورت ہو اور محلے والوں کا مسجد کی توسیع کا ارادہ ہو، یا مسجد کی ضروریات کے لیے کسی اور تعمیر کی حاجت ہوئی تو مذکورہ زمین استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس صورت میں آپ لوگوں کو بہر صورت اس وقف شدہ زمین سے اپنی تعمیرات ہٹانی ہوگی اور مذکورہ زمین خالی کرنی پڑے گی۔

جہاں تک آپ کی مستقبل میں اسی مسجد کی خدمت کی نیت ہے، تو اس نیت پر اللہ تعالیٰ اجر عطا فرمائیں گے۔

حوالہ جات
سنن الدارقطني (5/ 342)
عن ابن عمر , أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه , قال: يا رسول الله إني استفدت مالا وهو نفيس فأردت أن أتصدق به , قال:  «تصدق بأصلها لا يباع ولا يوهب ولا يورث ولكن ينفق ثمرته»
المبسوط للسرخسي (12/ 34)
قال (وإن جعل أرضا له مسجدا لعامة المسلمين وبناها وأذن للناس بالصلاة فيها وأبانها من ملكه فأذن فيه المؤذن وصلى الناس جماعة صلاة واحدة، أو أكثر لم يكن له أن يرجع فيه، وإن مات لم يكن ميراثا)
درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 134)
(وإذا لزم) الوقف (وتم لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه (ولا يملك) أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه (ولا يعار ولا يرهن) لاقتضائهما الملك الخ
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 352)
(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه، ولا يعار، ولا يرهن لاقتضائهما الملك درر.
العناية شرح الهداية (6/ 220)
قال (وإذا صح الوقف لم يجز بيعه) أي إذا لزم الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 430)
لأن مراعاة شرط الواقف لازم.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 358)
مطلب فيما لو خرب المسجد أو غيره (قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه مجتبى وهو الأوجه فتح. اهـ.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 748)
وفي البزازية ولا يجوز للقيم أن يجعل شيئا من المسجد مستغلا ولا مسكنا، ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الشيخين وبه يفتى.

ناصر خان مندوخیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

04/07/1442 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ناصر خان بن نذیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب