021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عشر کس پر واجب ہوگا
72236زکوة کابیانعشر اور خراج کے احکام

سوال

آج کل مہنگائی کا دور ہے، عشر آجر پر ہے یا مستاجر پر؟ جبکہ مستاجری فی ایکڑ پچاس ہزار روپے ہے اور اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ فی ایکڑ خرچہ ایک لاکھ کے قریب ہے۔ اگر فصل آفات سے محفوظ رہے اور پیداوار بھی اچھی ہو تو پندرہ بیس ہزار بچت ہوجاتی ہے خرچہ وغیرہ نکال کر۔ اِس صورت میں عشر کس پر واجب ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جواب سے پہلے دو باتیں سمجھنی چاہییں۔

1-اصل خرچہ پانی کا ہوتا ہے۔ شریعت نے اِس کا لحاظ کرکے بارانی زمین میں عشر اور نہری زمین میں نصف عشر لازم کیا ہے۔

2- فصل تیار ہونے سے پہلے جو خرچہ آتا ہے، وہ مستثنی نہیں ہوتا، لیکن فصل تیار ہونے کے بعد جو خرچہ آتا ہے، وہ مستثنی ہوتا ہے۔ مثلا: پیٹی، کیل، شالی، نقل و حمل وغیرہ۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ فصل اگر مہنگی تیار ہوتی ہے تو بکتی بھی مہنگی ہے۔اب اِس کے بعد یہ اصول سمجھیں کہ اگر موجر زمین کا کرایہ عام رواج کے مطابق مناسب لیتا ہے تو عشر یا نصفِ عشر مستاجر پر ہی ہوگا اور اگر موجر کرایہ عام رواج سے ہٹ کر زیادہ یا کافی زیادہ وصول کرتا ہے تو ایسی صورت میں عشر یا نصفِ عشر مستاجر کے بجائے موجر کرایہ میں سے ادا کرے گا۔

یہاں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ عشر ادا کرنے سے جو برکتیں اور فقراء کی دعائیں حاصل ہوتی ہیں، وہ کنجوسی یا اللہ کے حکم پر دلی خوشی کے ساتھ عمل نہ کرکے حاصل نہیں ہوتیں۔ لہذا عشر وغیرہ خوش دلی سے ادا کرنا چاہیے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: والعشر على المؤجر كخراج موظف، وقالا على المستأجر، كمستعير مسلم. وفي الحاوي: وبقولهما نأخذ. (الدر المختار مع رد المحتار: 2/334)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ : قوله:(والعشر على المؤجر) أي لو أجر الأرض العشرية فالعشر عليه من الأجرة كما في التتارخانية وعندهما على المستأجر.(رد المحتار:2/334)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: قلت: لكن في زماننا عامة الأوقاف من القرى والمزارع لرضا المستأجر بتحمل غراماتها ومؤنها يستأجرها بدون أجر المثل بحيث لا تفي الأجرة، ولا أضعافها بالعشر أو خراج المقاسمة، فلا ينبغي العدول عن الإفتاء بقولهما في ذلك؛ لأنهم في زماننا يقدرون أجرة المثل بناء على أن الأجرة سالمة لجهة الوقف ولا شيء عليه من عشر وغيره. أما لو اعتبر دفع العشر من جهة الوقف وأن المستأجر ليس عليه سوى الأجرة فإن أجرة المثل تزيد أضعافا كثيرة، كما لا يخفى. فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتى بقول الإمام وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لا يقول به أحد والله تعالى أعلم. (رد المحتار: 2/334)
حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: اگر زمیندار اجرت بہت زیادہ لیتا ہے اور مستاجر کے پاس بہت کم بچتا ہے تو عشر اور خراجِ مقاسمہ زمیندار پر ہے۔ اور اگر اجرت کم لیتا ہے اور مستاجر کو بچت زیادہ ہوتی ہے تو عشر اور خراجِ مقاسمہ مستاجر پر ہوگا۔ (احسن الفتاوی: 4/347)

صفی ارشد

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

19/رجب /1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب