021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کسی کو ایک لاکھ روپے زکاۃ دینا
72285زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بیوہ کو ایک لاکھ روپے زکاۃ دینا کیسا ہے، جبکہ اسے مکان بنانے کے لیے اس کی ضرورت بھی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی مستحق کو اتنی زکاۃ دینا کہ وہ صاحبِ نصاب ہو جائے، مکروہ ہے اور ایک لاکھ کی رقم نصاب سے زیادہ ہے۔ لہٰذا ایسی بیوہ کو ایک لاکھ روپے دینے سے زکاۃ تو ادا ہوجائے گی، البتہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔ کراہت سے بچنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ پہلے اسے زکاۃ کی اتنی رقم دے دے جس سے وہ نصاب کی مالک نہ بنے اور اسے کہہ دے کہ وہ مکان بنانا شروع کر دے۔ جب اس کے پاس رقم ختم ہو جائے تو مزید اتنی رقم دے دے جس سے وہ نصاب کی مالک نہ بنے۔ اس طرح کئی حصے کر کے دینے سے زکاۃ بھی ادا ہو جائے گی اور نصاب سے زیادہ زکاۃ دینے کی کراہت بھی لازم نہیں آئے گی۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زکاۃ کی اس رقم سے اس کو تعمیر کا سامان خرید کر دےدیا جائے۔ اس طرح سامان دینے سے وہ ایسے مال کی مالک نہیں بنے گی جو اسے نصاب کا مالک بنا سکے۔ لہٰذا اس طریقے پر عمل کرنے سے بھی کراہت لازم نہیں آئے گی۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالٰی: (وكره إعطاء فقير نصابا) أو أكثر (إلا إذا كان) المدفوع إليه (مديونا أو) كان (صاحب عيال) بحيث (لو فرقه عليهم لا يخص كلا) أو لا يفضل بعد دينه (نصاب) فلا يكره، فتح.
وقال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی:قوله: (وكره إعطاء فقير نصابا أو أكثر) وعن أبي يوسف: لا بأس بإعطاء قدر النصاب، وكره الأكثر؛ لأن جزءا من النصاب مستحق لحاجته للحال، والباقي دونه معراج، وبه ظهر وجه ما في الظهيرية وغيرها عن هشام قال: سألت أبا يوسف عن رجل له مائة وتسعة وتسعون درهما، فتصدق عليه بدرهمين. قال: يأخذ واحدا ويرد واحدا، اهـ. فما في البحر والنهر هنا غير محرر، فتدبر. قوله: (بحيث لو فرقه عليهم) :أي على العيال، فهو راجع إلى قوله: أو كان صاحب عيال. قال في المعراج: لأن التصدق عليه في المعنى تصدق على عياله، وقوله: أو لا يفضل معطوف على قوله: لو فرقه ،وهو راجع إلى قوله: مديونا، ففيه لف ونشر غير مرتب. (الدرالمختار مع ردالمحتار: 353/2)
وقال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: قوله: (للكسوة) ومثلها أجرة المسكن ومرمة البيت الضرورية لا ما يشتري به بيتا فيما يظهر. (ردالمحتار: 355/2)

محمد عبداللہ بن عبدالرشید

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

25/ رجب المرجب/ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبد اللہ بن عبد الرشید

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب