021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تجارت کے جانوروں میں زکاۃ
72288زکوة کابیانجانوروں کی زکوة کابیان

سوال

مفتی صاحب! ایک آدمی کا کاروبار یہ ہے کہ چالیس گائے خریدتا ہے اور انھیں چھ ماہ تک پال کر فروخت کر دیتا ہے۔ پھر دوبارہ چالیس اور گائے خریدتا ہے اور چھ ماہ تک پال کر فروخت کر دیتا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان جانوروں پر زکاۃ ہوگی؟اگر ہوگی تو ان کی زکاۃ کا حساب کیسے کیا جائے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ان جانوروں پر مالِ تجارت ہونے کی وجہ سے زکاۃ ہوگی۔ حساب کا طریقہ یہ ہوگا کہ زکاۃ کی تاریخ میں موجود مویشیوں کی کل مالیت کا حساب لگا کر اس کا اڑھائی فیصد بطور زکاۃ ادا کردیا جائے گا۔ یاد رہے کہ اگر  دیگر اموالِ زکاۃ موجود ہوں تو ان کی مالیت لگا کر ان کی بھی اسی شرح سے زکاۃ دی جائے گی۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالٰی: لو أسامها للحم فلا زكاة فيها، كما لو أسامها للحمل والركوب، ولو للتجارة ففيها زكاة التجارة. (الدرالمختار مع ردالمحتار: 275/2)
وقال أیضاً: (نصاب البقر والجاموس)….. (ثلاثون سائمة) غير مشتركة.
وقال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: قوله: (سائمة): نعت لثلاثون …..فلو علوفة فلا زكاة فيها، إلا إذا كانت للتجارة، فلا يعتبر فيها العدد، بل القيمة.(ردالمحتار: 280/2)
وقال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالٰی: فإن أسيمت للحمل أو الركوب أو اللحم فلا زكاة فيها، ولو أسيمت للبيع والتجارة ففيها زكاة مال التجارة، لا زكاة السائمة. (بدائع الصنائع: 30/2)
وقال العلامۃ سراج الدین ابن نجیم رحمہ اللہ تعالٰی: (ليس في الحوامل والعوامل والعلوفة صدقة): ولأن السبب هو المال النامي، ودليله الإسامة أو التجارة، ولم يوجدا، حتى لو كانت العلوفة للتجارة كان فيها زكاة التجارة. (النھرالفائق: 428/1)

محمد عبداللہ بن عبدالرشید

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

25/ رجب المرجب/ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبد اللہ بن عبد الرشید

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب