021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تکرار جماعت کا ایک مسئلہ{کیاہم ٹیوشن سے فارغ ہوکر مسجد میں دوبارہ جماعت کرواسکتے ہیں؟}
72697نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

مفتی صاحب! ہمارے ٹیوشن سینٹر کا وقت کچھ ایسا ہے کہ ہماری عشاء کی جماعت رہ جاتی ہے اور ہم مسجد میں باجماعت نماز نہیں پڑھ پاتے۔ کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم ٹیوشن سے فارغ ہوکر مسجد میں دوبارہ جماعت کروالیا کریں؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے لیے اس مسجد میں دوبارہ جماعت کروانا درست نہیں۔ آپ سب سے پہلے تو یہ کوشش کریں کہ ٹیوشن کے استاد سے بات کر کے مسجد کی جماعت کے وقت جایا کریں۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تو مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ اپنی جماعت کروا سکتے ہیں یا مسجد میں انفرادی طور پر اپنی اپنی نماز بھی پڑھ سکتے ہیں۔

حوالہ جات
قال العلامۃ االحصکفی رحمہ اللہ تعالٰی:ویکرہ….. وتكرار الجماعة، إلا في مسجد على طريق، فلا بأس بذلك، جوهرة.
وقال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: قوله: ( وتكرار الجماعة): لما روى عبد الرحمن بن أبي بكر عن أبيه ((أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم خرج من بيته ليصلح بين الأنصار، فرجع وقد صلى في المسجد بجماعة، فدخل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم في منزل بعض أهله، فجمع أهله، فصلى بهم جماعة.)) ولو لم يكره تكرار الجماعة في المسجد لصلى فيه. وروي عن أنس ((أن أصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم كانوا إذا فاتتهم الجماعة في المسجد صلوا في المسجد فرادى.)) ولأن التكرار يؤدي إلى تقليل الجماعة؛ لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة يتعجلون، فتكثر، وإلا تأخروا، اهـ، بدائع. وحينئذ فلو دخل جماعة المسجد بعد ما صلى أهله فيه، فإنهم يصلون وحدانا، وهو ظاهر الرواية، ظهيرية. وفي آخر شرح المنية: وعن أبي حنيفة: لو كانت الجماعة أكثر من ثلاثة يكره التكرار، وإلا فلا. وعن أبي يوسف إذا لم تكن على الهيئة الأولى لا تكره، وإلا تكره، وهو الصحيح. (ردالمحتار: 395/1)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالٰی: ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة، لا في مسجد طريق، أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.
وقال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: قوله: (ويكره): أي تحريما لقول الكافي: لا يجوز، والمجمع: لا يباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي.(ردالمحتار:552/1)
وقال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالٰی: قال قاضي خان في شرح الجامع الصغير: رجل دخل مسجدا قد صلى فيه أهله, فإنه يصلي بغير أذان وإقامة; لأن في تكرار الجماعة تقليلها.(البحرالرائق: 366/1)

محمدعبداللہ بن عبدالرشید

دارالافتاء، جامعۃ الرشید ،کراچی

6/شعبان المعظم/ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبد اللہ بن عبد الرشید

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب