021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ مال سے حاصل ہونے والے نفع کا حکم
72916شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!

میرے سسر کے انتقال کے بعد تمام وراثت اُن کی اولاد میں تقسیم ہونی تھی۔ لیکن انتقال کے بعد بڑے بیٹے نے دوسرے بھائیوں کو مال تقسیم کرنے سے منع کیا اور سارا پیسہ ایک ہی کاروبار میں لگادیا، اور اُس کاروبار کو چلانے کی ذمہ داری دوسرے بھائیوں پر ڈال دی۔ یہ سب اُنہوں نے زبردستی کیا، کسی کی رضامندی نہیں تھی۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اُس کاروبار سے حاصل ہونے والا نفع دوسرے بھائیوں کے لیے حلال ہے یا نہیں؟ اور کتنا نفع لینا اُن کے لیے جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مشترک مال کو اگر چہ بڑے بیٹے نے اپنی مرضی سے کاروبار میں لگایا ہے، لیکن دوسرے بھائیوں نے جب مجبوری میں اِس کو فیصلے کو تسلیم کرلیا اور اُس کے ساتھ کاروبار چلانے میں شریک ہوگئے تو یہ اُن سب کی جانب سے تصرف سمجھا جائے گا اور اُُس سے حاصل ہونے والا نفع سب کے درمیان مشترک ہوگا۔ اور اگر دوسرے بھائیوں نے بڑے بھائی کے فیصلے کی مخالفت کی اور اُس کے ساتھ کاروبار میں شریک ہونے سے انکار کیا تو اِس صورت میں یہ بڑے بھائی کی جانب سے غاصبانہ تصرف کہلائے گا اور حاصل ہونے والے نفع کا وہ اکیلا مالک ہوگا، اور اُس پر اُس نفع کو صدقہ کرنا واجب ہوگا۔

حوالہ جات
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی: وذكر محمد رحمہ اللہ تعالی في فصل: غاب أحد شريكي الدار، فأراد الحاضر أن يسكنها رجلا أو يؤجرها لا ينبغي أن يفعل ذلك ديانة؛ إذ التصرف في ملك الغير حرام حقا لله تعالى وللمالك، ولا يمنع منه قضاء؛ لأن الإنسان لا يمنع عن التصرف فيما في يده لو لم ينازعه أحد، فلو أجر وأخذ الأجر يرد على شريكه نصيبه لو قدر، وإلا، تصدق به؛ لتمكن الخبث فيه لحق شريكه، فكان كغاصب أجر يتصدق بالأجر أو يرده على المالك. (البحر الرائق: 5/180)
قال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالی: وركنها اجتماع النصيبين، وحكمها وقوع الزيادة على الشركة بقدر الملك. (الفتاوی الھندیۃ: 2/301)
قال العلامۃ علي حیدر رحمہ اللہ تعالی: إذا أجر اثنان الدار أو الساحة أو الحيوان أو الكروم المشتركة بينهما لآخر بالاتفاق فالإيجار صحيح، ويقسم بدل الإجارة بينهما بنسبة حصصهما.(درر الحکام في شرح مجلۃ الأحکام: 3/23)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: غاب أحد شريكي الدار، فأراد الحاضر أن يسكنها رجلا ويؤجرها لا ينبغي أن يفعل ذلك ديانة؛ إذ التصرف في ملك الغير حرام، ولا يمنع قضاء؛ إذ الإنسان لا يمنع من التصرف فيما بيده لو لم ينازعه أحد. فلو آجر وأخذ الأجر يرد على شريكه قدر نصيبه لو قدر، وإلا يتصدق؛ لتمكن الخبث في حق شريكه. (العقود الدریۃ: 1/90)

صفی ارشد

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

6/شعبان/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب