021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کیاوالداپنی زندگی میں اپنی جائیدادکسی ایک بیٹےکودےسکتاہے؟
73150میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال:کیافرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلےکےبارےمیں کہ محمدرفیق جوکہ والدہیں،جن کی اولادمیں چھ فردہیں:۱۔احمدسعید ۲۔شاہدرفیق ۳۔طاہررفیق ۴۔ساجدرفیق ۵۔عادل رفیق ۶۔عفت رفیق

کیاوالداپنی زندگی میں اپنی جائیدادکسی ایک بیٹےکودےسکتاہے؟کیایہ شریعت کی روسےجائزہے؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والداپنی زندگی میں اپنی جائیدادکسی بیٹےیابیٹی کوکسی معقول  وجہ(مثلا:دینداری،خدمت گزاری،فرمانبرداری،علم یازیادہ محتاج اورضرورت مندہونےکی وجہ سے)سےدےسکتاہے،بشرطیکہ زندگی میں قبضہ مکمل ہوجائے،البتہ  کسی ایک وارث کواس طرح ہبہ کرناکہ دوسرےورثہ یاتوبالکل محروم ہوجائیں یاان کاحصہ انتہائی کم ہوجائے،شرعاجائزنہیں،اگرکسی نےاس طرح کرلیاتوقبضہ کےذریعہ ہبہ مکمل سمجھاجائےگا،لیکن ہبہ کرنےوالا گناہ گارہوگا۔

واضح رہےکہ زندگی میں جوکچھ اولاد میں تقسیم کیاجاتاہے، وہ میراث نہیں ہوتی،بلکہ ہبہ وعطیہ ہوتاہےاورہبہ کےمکمل ہونے کےلئےقبضہ میں دیناضروری ہے،اگرزندگی میں کسی ایک وارث کومالک بناکرجائیدادقبضہ میں دیدی جائےتووہ اس کی ذاتی شمارہوگی،البتہ زندگی میں جائیدادہبہ کرنے میں بہتراورمفتی بہ قول یہ ہےکہ بیٹےاوربیٹیوں کوبرابرحصہ دیاجائے،کیونکہ یہ عطیہ اورہبہ ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہےکہ"اپنی اولادکوعطیہ دینےمیں برابری کرو"اس لئےاگربرابردیاجائےتوبہترہے،لیکن اگرکسی لڑکے یالڑکی کو کسی معقول وجہ سےزیادہ دیدیاجائے تواس میں کوئی حرج  نہیں،بشرطیکہ زندگی میں قبضہ تام ہوجائے۔

حوالہ جات
" خلاصۃ الفتاوی "  4/  40 :
وفی الفتاوی:رجل لہ ابن وبنت أرادأن یھب لھماشیئافالأفضل ان یجعل للذکرمثل حظ الانثیین عندمحمدرحمہ اللہ تعالی وعندابی یوسف رحمہ اللہ تعالی بینھماسواء ھوالمختارلورودالآثار،ولووھب جمیع مالہ لابنہ جازفی القضاء وھوآثم ثم نص عن محمد رحمہ اللہ تعالی ھکذافی العیون ،ولوأعطی بعض ولدہ شیئادون البعض لزیادۃ رشدہ لاباٗس بہ وان کاناسواء لاینبغی أن یفضل ،ولوکان ولدہ فاسقافأراد أن یصرف مالہ الی وجوہ الخیرویحرمہ عن المیراث ھذاخیرمن ترکہ لان فیہ اعانۃ علی المعصیۃ ولوکان ولدہ فاسقالایعطی لہ أکثرمن قوتہ۔
"الفتاوى الهندية "35 /  24:ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا ، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين ، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار ، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار ، كذا في الظهيرية ۔
 
 

محمدبن عبدالرحیم

 دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

23/رمضان 1442 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب