03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بھائیوں کی مشترکہ آمدن سے خریدی گئی جائیداد میں بہنوں کا حصہ
73258میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

والد کے پاس جتنی بھی جائیداد تھی ان میں کچھ جائیداد ایسی ہے جس کی خرید اور تعمیر تو اولاد یعنی بیٹوں کے مال سے ہوئی،لیکن وہ جائیداد والد کے نام پر تھی،کیا اس جائیداد میں تمام اولاد برابر کی حصہ دار ہے؟

تنقیح :سائل سے فون پر استفسار سے معلوم ہوا کہ اس جائیداد کو خریدا بھی اولاد نے اپنی کمائی سے تھا اور اس کا قبضہ اور تصرف وغیرہ بھی اولاد ہی کے پاس تھا، صرف کاغذات کی حد تک والد کے نام کروائی تھی اور یہ بھائیوں نے مشترکہ طور پر خریدی تھی،بعد میں والد صاحب کی سربراہی ان سمیت والد صاحب کی ملک میں موجود تمام جائیداد کو باہمی رضامندی سے تقسیم کردیا گیا اور جن کے حصے میں جو کچھ آیا وہ ان کے قبضے میں بھی دے دیا گیا۔

پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا اس جائیداد میں بہنوں کا بھی حصہ تھا یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ یہ جائیداد صرف کاغذات کی حد تک والد کے نام کروائی گئی تھی،تصرف کا اختیار اور قبضہ بیٹوں کا ہی تھا اس لیے یہ جائیداد بھائیوں کی مشترکہ ملکیت تھی،بہنوں کا اس میں حق نہیں تھا،البتہ جو جائیداد والد صاحب کی ملکیت تھی اس میں بہنوں کا حق تھا۔

حوالہ جات

"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية" (2/ 17):

"وأما قول علمائنا أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط منها اتحاد الصنعة وعدم مال سابق لهما وكون الابن في عيال أبيه فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب وانظر إلى ما عللوا به المسألة من قولهم؛ لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يضع فمدار الحكم على ثبوت كونه معينا له فيه فاعلم ذلك اهـ".

"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية "(2/ 15):

"(سئل) في رجل تصرف في دار معلومة زمانا تصرف الملاك في أملاكهم من غير معارض له في ذلك ولا في شيء منه ثم باعها من زيد وباعها زيد من عمرو ومضى للتصرف المذكور أكثر من عشرين سنة وللرجل قريب مطلع على التصرف المذكور هو وورثته من بعده ولم يدعوا بشيء من الدار والكل في بلدة واحدة ولم يمنعهم من الدعوى مانع شرعي قام الآن ورثته يريدون الدعوى بشيء من الدار فهل تكون دعواهم بذلك غير مسموعة؟

(الجواب) : نعم لا تسمع دعواهم في ذلك وتترك الدار في يد المتصرف قطعا للأطماع الفاسدة؛ لأن السكوت كالإفصاح قطعا للتزوير والحيل والمسألة في كثير من المعتبرات كالتنوير والكنز والملتقى في مسائل شتى آخر الكتاب والبزازية الولوالجية وعبارتها رجل تصرف زمانا في أرض ورجل آخر رأى الأرض والتصرف ولم يدع ومات على ذلك لم تسمع بعد ذلك دعوى ولده فتترك في يد المتصرف؛ لأن الحال شاهد اهـ لا سيما بعد صدور المنع السلطاني عن سماع الدعوى بعد خمس عشرة سنة والمسألة في فتاوى الأنقروي مفصلة وكذا في الخيرية في كتاب الدعوى في عدة أسئلة".

 

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

26/شوال1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب