73356 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
مفتی صاحب ہمارے والد صاحب جن کا انتقال ہوگیا ہے ان کے ورثہ میں پانچ افراد ہیں،دو بیٹے،دو بیٹیاں اور ایک بیوی،اب مجھے درج ذیل سوال کا جواب مطلوب ہے:
والدصاحب مرحوم نے نے کراچی میں ایک کنال کا پلاٹ لیا ہوا تھا جس میں سے انہوں نے اپنی چھوٹی بیٹی صائمہ ظہیر کو دس مرلے پر مکان بنواکر دیا اور اس میں وہ رہائش پذیر اور قابض ہے عرصہ بارہ سال سے،باقی دو مرلے بیچ کر انہوں نے آٹھ مرلے پر مدرسہ بنوایا ہے اور اس کو باقاعدہ قانونی طور پر وقف کردیا اور وقف نامہ بھی بنوایا جو کہ وفاق کے تحت عرصہ بارہ سال سے چل رہا ہے،اب اس گھر اور مدرسے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ وراثت میں تقسیم ہوں گے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
وراثت میں وہ چیزیں تقسیم ہوتی ہیں جو مرتے وقت کسی کی ملکیت میں ہوں،چونکہ گھر اور مدرسے کو انہوں نے زندگی میں ہی اپنی ملکیت سے نکال دیا تھا،اس لیے ان کی وفات کے بعد اب یہ گھر اور مدرسہ میراث میں تقسیم نہیں ہوں گے۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (5/ 688):
"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح".
"الدر المختار " (4/ 338):
"(وعندهما هو حبسها على) حكم (ملك الله تعالى وصرف منفعتها على من أحب) ولو غنيا فيلزم، فلا يجوز له إبطاله ولا يورث عنه وعليه الفتوى ابن الكمال وابن الشحنة".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ : "(قوله وعليه الفتوى) أي على قولهما يلزمه. قال في الفتح: والحق ترجح قول عامة العلماء بلزومه؛ لأن الأحاديث والآثار متظافرة على ذلك، واستمر عمل الصحابة والتابعين ومن بعدهم على ذلك فلذا ترجح خلاف قوله اهـ ملخصا".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
04/ذی قعدہ1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |