73357 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
مفتی صاحب ہمارے والد صاحب جن کا انتقال ہوگیا ہے ان کے ورثہ میں پانچ افراد ہیں،دو بیٹے،دو بیٹیاں اور ایک بیوی،اب مجھے درج ذیل سوال کا جواب مطلوب ہے:والدصاحب مرحوم نے ایک مکان کراچی میں خرایدا ہوا ہے جو کہ تین منزلہ اور تقریبا چار مرلے ہے،اس میں انہوں نے دوسری منزل پر مدرسہ قائم کیا ہوا ہے،تاہم یہ مدرسہ قانونی طور پر وقف نہیں ہے،البتہ انہوں نے اس مکان کے بارے میں کہہ دیا تھا کہ یہ دونوں بھائیوں کا ہے،بیٹیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے اور دونوں بھائی اپنے اپنے مکانوں میں رہ رہے ہیں اور قابض بھی ہیں،اب اس گھر اور مدرسے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟میراث میں تقسیم ہوں گے یا نہیں؟
تنقیح :سائل نے وضاحت کی کہ اس تین منزلہ گھر میں سے ایک منزل والد صاحب نے زبانی اور عملی طور پر مدرسے کے لیے وقف کردی تھی،لیکن قانونی طور پر رجسٹریشن نہیں کروائی تھی،جبکہ پہلی میں ایک بھائی رہائش پذیر تھا اور تیسری منزل کرایہ پر تھی،والد صاحب نے پہلی اور تیسری منزل دونوں بیٹوں کو مشترکہ طور پر تعیین کے بغیر ہبہ کی تھی،اسی طرح والد صاحب جب کراچی میں ہوتے تو رہائش یہی رکھتے اور ہبہ کے بعد بھی اوپر والی منزل کے کرایہ داری کے معاملات وہ خود سنبھالاکرتے تھے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
وقف مکمل ہونے کے لیے قانونی طور پر رجسٹریشن کروانا ضروری نہیں،بلکہ زبانی طور پر وقف کردینا کافی ہے،اس لیے جو منزل والد صاحب نے مدرسہ کے لیے وقف کردی تھی وہ وراثت میں تقسیم نہیں ہوگی۔
البتہ بقیہ دو منزلیں وراثت میں تقسیم ہوں گی،کیونکہ ان کا ہبہ درج ذیل وجوہ کی بناء پر مکمل نہیں ہوا:
1۔قابل تقسیم اشیاء میں ہبہ کی تکمیل کے لیے انہیں تقسیم کرکے حوالے کرنا شرط ہے،جبکہ والد صاحب نے یہ دو منزلیں باقاعدہ تقسیم کرکے بیٹوں کو ہبہ نہیں کی،بلکہ مشترکہ طور پر دی تھیں۔
2۔ہبہ کرنے کے بعد بھی مالکانہ تصرفات والد خود انجام دیتے رہے،جیسا کہ تیسری منزل کے کرایہ داری کے معاملات۔
3۔والد صاحب خود بھی اس میں نچلی منزل میں رہائش پذیر رہے۔
اس لیے یہ دو منزلیں اب ان کی وفات کے بعد ورثہ میں شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوں گی۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (5/ 688):
"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح".
"الدر المختار " (4/ 338):
"(وعندهما هو حبسها على) حكم (ملك الله تعالى وصرف منفعتها على من أحب) ولو غنيا فيلزم، فلا يجوز له إبطاله ولا يورث عنه وعليه الفتوى ابن الكمال وابن الشحنة".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ : "(قوله وعليه الفتوى) أي على قولهما يلزمه. قال في الفتح: والحق ترجح قول عامة العلماء بلزومه؛ لأن الأحاديث والآثار متظافرة على ذلك، واستمر عمل الصحابة والتابعين ومن بعدهم على ذلك فلذا ترجح خلاف قوله اهـ ملخصا".
"الفتاوى الهندية "(2/ 351):
". وإذا كان الملك يزول عندهما يزول بالقول عند أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وهو قول الأئمة الثلاثة وهو قول أكثر أهل العلم وعلى هذا مشايخ بلخ وفي المنية وعليه الفتوى كذا في فتح القدير وعليه الفتوى كذا في السراج الوهاج".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
04/ذی قعدہ1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |