021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ناپسندیدگی کی وجہ سے بیوی کو طلاق دینا
73555طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

میری شادی ایک سال پہلے ہوئی تھی،شادی سے پہلے میرا خیال تھا کہ بیوی کو گھر کے کام کاج میں مہارت ہونی چاہیے،چاہے وہ خوبصورت نہ ہو،میرے گھر والوں نے میری شادی ایک ایسی لڑکی سے کروادی جو نہ خود پڑھی لکھی تھی اور نہ اس کے گھر میں کوئی پڑھا لکھا تھااور وہ مجھ سے عمر میں بھی بڑی تھی اور خوبصورت بھی نہیں تھی،میرا سوال یہ ہے کہ مجھے اس لڑکی کی طرف بالکل بھی میلان نہیں ہوتا،میں اس سے بہت کم بات کرتا ہوں اور اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں بھی مجھے بہت مشکل ہوتی ہے،دل ہی نہیں کرتا،وہ مطمئن ہوجاتی ہے،میں بالکل بھی نہیں ہوتا،بلکہ اور چڑچڑا ہوجاتا ہوں،یہی وجہ ہے کہ ایک سال ہوگیا،لیکن وہ امید سے نہیں ہوئی،میرا سوال یہ ہے کہ میں اس کو طلاق دینا چاہتا ہوں،کیونکہ مجھے اس سے جنسی آسودگی حاصل نہیں ہورہی اور اس کا بھی مناسب حق نہیں دے پارہا،برائے مہربانی اس سلسلے میں میری راہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جس وقت آپ کا رشتہ اس عورت سے طے کیا جارہا تھا آپ کو اسی وقت اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرکے اس رشتے سے انکار کردینا چاہیے تھا،تاکہ اس لڑکی کی زندگی برباد نہ ہوتی، اب جبکہ شادی کو ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے اگر آپ اسے طلاق دیں گے تو اس کی بقیہ زندگی خراب ہوجائے گی،کیونکہ ہمارے معاشرے طلاق یافتہ عورت سے کوئی دوبارہ رشتے کے لیے کم ہی تیار ہوتا ہے،اس لیے مذکورہ صورت میں اس لڑکی کو محض اپنی ناپسندیدگی کی وجہ سے طلاق دینا مناسب نہیں،بلکہ اسے طلاق دینے کے بجائے آپ دوسری شادی کرلیں،طلاق کو شریعت نے جائز رکھا ہے،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ جائز ہونے کے باوجود بہت ناپسندیدہ عمل ہے۔

حوالہ جات
"فتح القدير للكمال ابن الهمام" (3/ 464):
"وأما وصفه فهو أبغض المباحات إلى الله تعالى على ما رواه أبو داود وابن ماجه عنه - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «إن أبغض المباحات عند الله الطلاق» فنص على إباحته وكونه مبغوضا وهو لا يستلزم ترتب لازم المكروه الشرعي إلا لو كان مكروها بالمعنى الاصطلاحي، ولا يلزم ذلك من وصفه بالبغض إلا لو لم يصفه بالإباحة لكنه وصفه بها؛ لأن أفعل التفضيل بعدما أضيف إليه، وغاية ما فيه أنه مبغوض إليه سبحانه وتعالى ولم يترتب عليه ما رتب على المكروه، ودليل نفي الكراهة قوله تعالى {لا جناح عليكم إن طلقتم النساء ما لم تمسوهن} [البقرة: 236] .....
وإنما أبيح للحاجة والحاجة ما ذكرنا في بيان سببه فبين الحكمين منهم تدافع، والأصح حظره إلا لحاجة للأدلة المذكورة، ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات: أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة، وهو ظاهر في رواية لأبي داود «ما أحل الله شيئا أبغض إليه من الطلاق» وإن الفعل لا عموم له في الزمان، غير أن الحاجة لا تقتصر على الكبر والريبة، فمن الحاجة المبيحة أن يلقى إليه عدم اشتهائها بحيث يعجز أو يتضرر بإكراهه نفسه على جماعها، فهذا إذا وقع فإن كان قادرا على طول غيرها مع استبقائها ورضيت بإقامتها في عصمته بلا وطء أو بلا قسم فيكره طلاقه كما كان بين رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وسودة، وإن لم يكن قادرا على طولها أو لم ترض هي بترك حقها فهو مباح؛ لأن مقلب القلوب رب العالمين".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

27/ذی قعدہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب