021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہنوں کی میراث سے متعلق مختلف سوالات کے جوابات
73606میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

   زید کے چار بیٹے ہیں اورچار بیٹیاں،زید ﴿والد﴾کا انتقال 2003میں ہوگیا تھا ،لیکن تاحال ان کی میراث تقسیم نہیں کی جاسکی ،جب بہنوں نے وراثت کا مطالبہ کیا تو زیدکے بیٹوں نے جواب دیاکہ کل زمین 48کنال تھی اور36کنال زمین والد نے ہمارے نام کردی تھی، بقیہ12 کنال چار بھائیوں اوربہنوں کے درمیان تقسیم ہوگی اورایک بیٹی کو زید ﴿والد﴾ نے زندگی میں ایک کنال زمین گھربنانے کے لیے دی تھی اوراس بیٹی نے 1996میں اس پرگھر بھی بنالیا تھا اورابھی تک اس میں رہ ہی ہے،لیکن اب بھائی کہتے ہیں 2کنال زمین میں سے بہن کو حصہ نہیں ملے گا، کیونکہ والدنے اس کو زندگی میں ایک کنال زمین دیدی تھی لیکن زید ﴿والد﴾نے زمین بیٹی کے نام نہیں کی۔

 واضح رہے کہ یہ ساری زمین والد کی زندگی میں خریدی گئی تھی جبکہ سارے بھائی اکٹھے رہتے تھے اورگھر کا سربراہ والد تھا۔ زید کی بیوی کاانتقال ہوچکاہے، وہ2014کو فوت ہوئی تھی،ایک بھائی کا دعوی ہے کہ والد نے مجھے کہاتھاکہ ایک بیٹی کو ایک کنال حصہ دیدیاتھا، لیکن اس کے پاس گواہ نہیں ہے۔

مذکورہ بالاحالات کی روشنی  میں اب درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

١۔ وہ بیٹی جس کو والد کی زندگی میں ایک کنال زمین ملی تھی کیا اب وہ والد کی باقی وراثت سے محروم ہوگی؟

۲۔اگروہ وراثت سےمحروم نہیں ہوگی تو اب اس کو باقی میراث میں کتناحصہ ملے گا؟

۳۔والد کی وفات کے وقت باقی اموال بھی موجود تھے جیسے کہ ایک دکان،کچھ بھینسیں کیاان  میں بھی بیٹیوں کا حصہ ہوگا؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 (١)قرآن وحدیث  کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ”میراث  “کا تعلق آدمی کے مرنے کے بعدچھوڑے  ہوئے ترکہ سے ہے،لہذامرحوم نے  جو پلاٹ  اپنی بیٹی کو اپنی زندگی میں عطیہ کیا تھا اگر  مرحوم نے وہ پلاٹ مالکانہ حقوق کے ساتھ عملاً   بیٹی کوقابض بناکر دیا تھا تو یہ ہبہ درست ہوا    اور مذکورہ پلاٹ بیٹی کی ملکیت ہوگیا ،اب وہ پلاٹ مرحوم کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگا،لیکن اس ہدیہ کے باوجود مرحوم کی مذکورہ  بیٹی  دوسرے ورثہ کے ساتھ باقی ترکہ میں اپنے شرعی حصے کی حد تک شریک ہوگی،اوراس بناء پر اس کو میراث سے محروم نہیں کیا جاسکتاکہ اس کو والد کی طرف سے چونکہ ایک پلاٹ مل گیاتھا لہذا اب اس کو میراث نہیں ملے گی۔

(2) اس کو اتنا ہی حصہ ملے گا جتنا کہ دیگران بیٹیوں کو ملتاہے جن کو والد نے زندگی میں کچھ نہیں دیا،دونوں کے حصوں میں کوئی فرق نہیں۔ہاں والد کے لیے بلاکسی شرعی وجہ ایسا کرناکہ کچھ اولاد کو نوازے اورکچھ کو نہ دےصحیح نہیں،تاہم اگروہ  دیدے اورلینے والا ان کی زندگی میں اس پر قبضہ کرلے تووہ اسی کا ہوجاتاہے دیگرورثہ کا اس میں حصہ نہیں ہوتا،لیکن اس کی وجہ سے اس وارث کو میراث  سے محروم نہیں کیا جاسکتااورنہ ہی اس کی میراث میں اس کی دلی رضامندی کےبغیر کمی کی جاسکتی ہے ۔

 (3) مرحوم  نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ جائیدادمثلاً :مکان ،پلاٹ، سونا چاندی نقدی رقم،مالِ تجارت، کپڑے، برتن، دکان، بھینسیں غرض  ہر طرح  کا چھوٹا بڑا سازو سا مان جوچھوڑا ہےاور مرحوم کاوہ قرض  جوکسی شخص یاادارہ کےذمہ واجب ہویہ سب چیزیں مرحوم کےترکہ میں شامل ہیں،اوران سب میں بیٹوں کی طرح بیٹیوں بھی حصہ ہے۔

حوالہ جات
وفی القران الکریم[النساء: 7]
{لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا}
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 222)
الهبة عقد مشروع ۔۔"وتصح بالإيجاب والقبول والقبض" أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد، والعقد ينعقد بالإيجاب، والقبول، والقبض لا بد منه لثبوت الملك.۔۔۔۔ ولنا قوله عليه الصلاة والسلام: "لا تجوز الهبة إلا مقبوضة"
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 222)
الهبة عقد مشروع ۔۔"وتصح بالإيجاب والقبول والقبض" أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد، والعقد ينعقد بالإيجاب، والقبول، والقبض لا بد منه لثبوت الملك.۔۔۔۔ ولنا قوله عليه الصلاة والسلام: "لا تجوز الهبة إلا مقبوضة
وفی رد المحتار:
الترکۃ في الاصطلاح ماترکہ المیت من الأموال صافیا عن تعلق حق الغیر بعین من الأموال۔ ( کتاب الفرائض، کراچي ۶/۷۵۹، مکتبۃ زکریا دیوبند ۱۰/۴۹۳)
وفی تکملہ فتح الملہم:
إن الأصل الأول في نظام المیراث الإسلامي: أن جمیع ماترک المیت من أملاکہ میراث للورثۃ ۔ (کتاب الفرائض، جمیع ماترک المیت میراث، مکتبۃ اشرفیۃ دیوبند ۲/)
وفی شرح المجلۃ:
إن أعیان المتوفي المتروکۃ عنہ مشترکۃ بین الورثۃ علی حسب حصصہم۔ (شرح المجلۃ لسلیم رستم باز، مکتبۃ اتحاد دیوبند ۱/۶۱۰، رقم المادۃ: ۱۰۹۲)

.حکیم شاہ

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی پاکستان

30/ذی القعدہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب