021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عقد مزارعت میں بیج کے بدلے متعین پیداوار لینے کی شرط لگانا
75158کھیتی باڑی اور بٹائی کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

میں اپنی زمین کسی اور کو بٹائی پر دیتا ہوں،بیج بھی میرا ہوتا ہے،کاشتکار اس کو بوتا ہے اور اس کی  دیکھ بھال وغیرہ کرتاہے۔زمین بٹائی پر دیتے وقت ہم آپس میں یہ طے کرتے ہیں کہ پیداوار نکلنے کے بعد بیج کا مالک سب سے پہلے اپنے بیج کے بقدر پیداوار میں سے لے گا،اس کے بعد باقی پیداوار آدھا آدھا تقسیم ہوگا۔کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟ اس طرح کرنا ہماری مجبوری ہے،کیونکہ بیج کے مقابلے میں الگ سے پیداوار نہ لیا جائے تو پھر زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔اگر ایسا کرنا جائز نہیں تو پھر کوئی ایسی صورت بتادیں کہ جس سے بیج کا مالک اور دوسرا شخص پیداوار لینے میں برابر ہوجائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت میں عقد مزارعت(زمین بٹائی پر دینے کا معاملہ)صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ زمیندار اور عامل (کاشتکار )حاصل ہونے والی تمام پیداوار میں اس طرح شریک ہوں کہ ہر ایک کو حاصل ہونے والی کل  پیداوار میں طے شدہ حصہ ملے۔لہذا اگر ایسی کوئی شرط لگائی جائے کہ جس میں دوسرے شخص کو اس کا حصہ بالکل نہ ملے جیسے تمام پیداوار بیج کے مالک کے لیے مشروط ہو،یا ایسی شرط لگائی جائے کہ جس سے دوسرے بندے کا حصہ ملنا غیر یقینی  ہو جیسے بیج دینے والا یہ شرط لگائے کہ پہلے پیداوار سے متعین طور پر)یعنی دس یا پندرہ بوری( میرے بیج کو نکالا جائے گا اس کے بعد پیداوار کو مقرر کردہ حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا ،تو  ان شرائط کی وجہ سے عقد فاسد یعنی ناجائز ہوجائے گا، کیونکہ اس دوسری  صورت میں ہوسکتا ہے کہ پیداوار صرف دس بوری ہی ہو تو عامل کو پیداوار میں سے پھر کچھ نہیں ملے گا،اس لئے  یہ شرط بھی جائز نہیں۔

فقہاء کرام نے بیج کے مالک کے لیے پیداوار سے اپنا بیج نکالنے کا ایک طریقہ لکھا ہے،وہ یہ کہ بٹائی کا معاملہ کرتے وقت بیج دینے والا یہ کہے کہ پیداوار کا دسواں حصہ میرے بیج کے مقابلے میں نکالا جائے گا اس کے بعد باقی پیداوار طے کردہ حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔یہ شرط جائز ہے، کیونکہ یہ صورت  پیداوار میں شرکت کے منافی نہیں،کیونکہ پیداوار جتنا بھی ہو اس کا دسواں حصہ ہوگا اور دسواں حصہ نکالنے کے بعد باقی نو حصوں میں دونوں شریک ہوں گے۔

حوالہ جات
(الفتاوی الہندیة،علامة   نظام وجماعةمن علماء الھند:41/404)
"ولو شرط لصاحب البذر قدر العشر من الخارج ،والباقي بينهما صحت المزارعة ؛ لأن هذا الشرط لا يقطع الشركة في الخارج؛ لأن الخارج وإن قل يكون له عشر، وهذا هو الحيلة لصاحب البذر إذا أراد أن يصل  إليه قدر البذر أن يشترط لنفسه قدر البذر باسم العشر،أو الثلث، أو ما أشبهه ،والباقي بينهما ،كذا في النهاية."
(بدائع الصنائع ج:5،ص:258،الناشر:داراحیاء التراث العربی،بیروت- لبنان)
 ( ومنها ) : أن يكون جزءا شائعا من الجملة حتى لو شرط لأحدهما قفزانا معلومة لا يصح العقد؛ لأن المزارعة فيها معنى الإجارة ، والشركة تنعقد إجارة ثم تتم شركة . . . . . وإذا ثبت أن معنى الإجارة والشركة لازم لهذا العقد فاشتراط قدر معلوم من الخارج ينفي لزوم معنى الشركة؛  لاحتمال أن الأرض لا تخرج زيادة على القدر المعلوم ؛ وعلى هذا إذا شرط أحدهما البذر لنفسه ، وأن يكون الباقي بينهما لا تصح المزارعة ؛ لجواز أن لا تخرج الأرض إلا قدر البذر ، فيكون كل الخارج له فلا يوجد معنى الشركة ، ولأن هذا في الحقيقة شرط قدر البذر أن يكون له لا عين البذر ؛ لأن عينه تهلك في التراب ، وذا لا يصح ؛ لما ذكرنا  . . . . . ( فأما ) المزارعة فتقتضي الشركة في كل الخارج ، واشتراط قدر معلوم من الخارج يمنع تحقق الشركة في كله."

  ابرار احمد صدیقی

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 ۲۹/۰۵/ ١۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ابراراحمد بن بہاراحمد

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے