021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
Bitkrypton کمپنی کے کاروبار کا حکم ﴿بٹ کریپٹون کمپنی کے کاروبار کا حکم﴾
70740جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

سوال: گزارش ہے کہ دورِ حاضر میں روز گار کوبڑھانے کے حوالے سے ا نٹر نیٹ پر بہت سے طریقے موجود ہیں۔ جن میں سے ایک ا سٹاک مارکیٹنگ ہے ۔جس میں کمپنی کے پراڈکٹس کے شئیرز کی خریدو فروخت میں نفع اور نقصان بغیر فکس قیمت کے ادا ہوتا ہے ۔ جس میں شئیرز خریدنے والا اور شیئرز فروخت کرنے والا اپنی رقم کا حساب رکھتے ہیں ۔

    گزارش ہے کہ ایک کمپنی جس کا نام Bitkrypton ہے ۔کمپنی کے کہنے کہ مطابق وہ Investorsسے رقم جمع کر کے کسی کمپنی کے ذریعے اسٹاک مارکیٹنگ کرتے ہیںBitkrypton نامی کمپنی اپنے Investorsکو جتنی رقم وہ ادا کرتے ہیں عموماً اس رقم کا 0.5%فیصد روزانہ کی بنیاد پر 730 Working Days  کی مدت تک کے لیے ادا کرتی ہے ۔کبھی کبھار سننے اور دیکھنے میں آ یا ہے کہ نفع کی قیمت میں کمی یا زیادتی ہو جاتی ہے ۔کمپنی ان لوگوں کو جو ان کو رقم کاروبار کے لیے دیتے ہیں انکی رقم کا نفع بغیر کسی نقصان کے اپنے معاہدہ کے مطابق 0.5%فیصد ادا کرتی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ اپنے Investorsکو انکی رقم سے کمایا گیا مکمل نفع فراہم نہیں کرتی، اس لیے جس دن نقصان ہوتا ہے وہ اپنے Investorsسے نقصان کی وصولی نہیں کرتی بلکہ 0.5%فیصد کے حساب سے نقصان والے دن بھی ادائیگی کرتی ہے ۔کمپنی کے کہنے کے مطابق کمپنی بہت سے حلال کا روبار کرتی ہے۔اگر کمپنی کو ایک کاروبار میں نقصان بھی ہو تو وہ اپنے باقی کاروبا روں سے کمائے گئے نفع سے Bitkryptonکے Investors کا نقصان برداشت کرتی ہیں لیکن اگرکمپنی کو اس قدر نقصان ہو کے وہ نفع دینے کے قابل نہ رہے تو کمپنی کے مطابق کمپنی نفع دینا بند کر دے گی ۔اِ س صورت میں  اگر کسی  Investorکی اصل رقم مکمل طور پر اس کو موصول نہ ہوئی ہو تو اسکی اصلInvestment کی ادائیگی کرے گی ۔ اس کے علاوہ کمپنی یہ آفر دیتی ہے کے دوسرے Investors کی Investment اگر Bitkrypton میں لائیں تو کمپنی کمیشن کے طور پرInvestors کی رقم کا 7%فیصد ادا کرے گی اسکے علا وہ کبھی یہ کمیشن12%فیصد ،17%فیصد یا 22%فیصد تک بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

      اس طرح سے رقم کمانے میں محنت بھی درکار ہوتی ہے ۔آپ سے گزارش ہے کے اسلامی نقطہ نگاہ سے اس کاروبار کی حقیقت سے آگاہ کریں آیا کہ یہ سود ہے یا نہیں اور با قاعدہ تحریری فتویٰ جاری کر دیجیے تاکہ میں اپنی اور دوسرے لوگوں کی رہنمائی کر سکوں ۔ 

تنقیح: کمپنی کی پرانی پالیسی کے مطابق 730  working Days گزرنے کے بعد نفع ملنا بند ہوجائے گا اور اصل رأس المال بھی واپس نہیں ہوگا۔ جبکہ سائل کے مطابق اب نئے آنے والے کسٹمرز کے لیے کمپنی کی پالیسی یہ ہے کہ انہوں نے یومیہ نفع کی شرح کچھ کم کردی ہے ،اور اگر ابتدائی 6 ماہ کے اندر اگر راس المال واپس لیا جائے گا تو  اس میں سے 25 فیصد کٹوتی ہوگی ۔  730 دن گزرنے کے بعد پورا  راس المال سرمایہ کار کو واپس کردیا جائے گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 

کمپنی مختلف شیئرز،بانڈز،کرنسی  اور کموڈٹیز وغیرہ   میں ٹریڈ کرتی ہے ۔کمپنی کی ویب سائٹ دیکھنے سے اس کے   کاروبار کے تفصیلی طریق کار کے متعلق  مکمل  معلومات حاصل نہیں ہوسکیں ۔

البتہ زیر نظر سوال اور کمپنی کی ویب سائٹ دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کمپنی کے کاروبار  میں کئی شرعی خرابیاں پائی جاتی ہیں ،اس لیے اس کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے ۔ نیز قانونی لحاظ سے سقم یہ ہے کہ مذکورہ کمپنی SECP  کے پاس بھی رجسٹرڈ نہیں ہے ۔ اس لیے اس میں فراڈ اور دھوکہ کے امکانات بھی ہیں ۔اس لیے بھی اس میں سرمایہ کاری کرنے سے اجتناب ضروری ہے ۔

شرعی خرابیاں درج ذیل ہیں :

1۔ کمپنی یومیہ سرمایہ کا 0.5 فیصد نفع دیتی ہے ۔جبکہ نفع  سرمایہ کے تناسب سے طے  کرنا جائز نہیں  ،بلکہ حاصل ہونے والے نفع کا  کوئی فیصدی تناسب طے کر نا ضروری ہے ۔

2۔ راس المال کے بقدر نفع وصول نہ ہونے کی صورت میں کمپنی راس المال کے بقدر سرمایہ کی ضامن ہوتی ہے ، اور سرمایہ کا ضامن بننا جائز نہیں ہے ۔

3۔ پرانی پالیسی کے مطابق 730 دن گزرنے کے بعد کمپنی  اصل راس المال واپس نہیں کرتی ،جو کہ ناجائز ہے ۔ اس لیے راس المال  اصل سرمایہ کار کی ملکیت ہے ۔ اسی طرح موجودہ پالیسی کے مطابق  مقررہ مدت سے پہلے سرمایہ واپس لینے کی صورت میں  سرمایہ میں سے 25 فیصد کٹوٹی کرنا  بھی ناجائز ہے ۔

4۔ کمپنی قیمتوں کے فرق برابر کرنے (Contract for difference) کے بہت سے معاملات کرتی ہے ۔جس میں خریدو فروخت اصلا ً مقصود نہیں ہوتی ،بلکہ اشیاء کی قیمتوں کا فرق برابر کرکے نفع کمایا جاتا ہے۔جوکہ ایک  سٹہ اور جوا ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے ۔

خلاصہ یہ کہ کمپنی کےمعاملات مکمل طور پر شریعت کے مطابق نہیں ہیں ،نیز قانونی لحاظ سے بھی لوگوں کے اموال کو تحفظ حاصل نہیں ہے ،اس لیے اس کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے ۔

حوالہ جات
القرآن الکریم  [البقرة: 188] [النساء: 59]
{ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ}۔۔۔۔۔۔۔۔۔{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا }
بدائع الصنائع (6/ 85)
ومنها أن يكون المشروط لكل واحد منهما من المضارب ورب المال من الربح جزءا شائعا نصفا أو ثلثا أو ربعا فإن شرطا عددا مقدرا بأنشرطا أن يكون لأحدهما مائة درهم من الربح أو أقل أو أكثر والباقي للآخر لا يجوز والمضاربة فاسدة لأن المضاربة نوع من الشركة وهي الشركة في الربح وهذا شرط يوجب قطع الشركة في الربح لجواز أن لا يربح المضارب إلا هذا القدر المذكور فيكون ذلك لأحدهما دون الآخر فلا تتحقق الشركة فلا يكون التصرف مضاربة
 وكذلك إن شرطا أن يكون لأحدهما النصف أو الثلث ومائة درهم أو قالا إلا مائة درهم فإنه لا يجوز كما ذكرنا أنه شرط يقطع الشركة في الربح
بدائع الصنائع (6/ 109)
وأما صفة هذا العقد  فهو أنه عقد غير لازم ولكل واحد منهما أعني رب المال والمضارب الفسخ لكن عند وجود شرطه وهو علم صاحبه لما ذكرنا في كتاب الشركة
فقہ البیوع(1/373)
الثالث:أن المبیع فی معظم ھذہ العقود لایکون مملوکاً للبائع عند العقود ۔وفی معظم الحالات ، لایقصد بھذاالبیع تسلیم المبیع و تسلّمہ ،وإنما ینتھی العقد بتسویۃ فروق الأسعار ،وھو نوع من المضاربات و المقامرۃ۔

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

16/04/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب