021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چار بیٹوں اور چھ بیٹیوں میں میراث کی تقسیم
74235میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے والد صاحب کا انتقال 7 نومبر 2019 کو ہوا ہے۔ ہمارا ایک مکان 2 منزلہ ہے جس کی مالیت تقریبا 80 لاکھ روپے ہے۔  انتقال کے وقت ان کے ورثا میں 6 بیٹیاں اور 4 بیٹے تھے۔ اب یہ رقم شریعت کی روشنی میں کیسے تقسیم ہوگی؟ والد صاحب کی وصیت کے مطابق اس تقسیم کا اختیار بڑے بیٹے خالد اور سب سے چھوٹے بیٹے ضیاء الحق کے ذمہ ہے۔ ہماری والدہ اور ہمارے والد صاحب کے والدین، دادا، دادی اور نانی کا انتقال ان کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے والد صاحب نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں اس دو منزلہ مکان سمیت نقدی، سونا، چاندی، جائیداد، مکانات، کاروبار غرض جو کچھ چھوٹا، بڑا ساز و سامان چھوڑا ہے، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب اس کا ترکہ ہے، اس میں سے سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، البتہ اگر یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان اٹھائے ہوں تو پھر انہیں ترکہ سے نہیں نکالا جائے گا۔ اس کے بعد دیکھا جائے اگر ان کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے گا۔ اس کے بعد اگر انہوں نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ کی حد تک اس کو پورا کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو کچھ بچے، اس کو کل چودہ (14) حصوں میں تقسیم کرکے چار بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو دو، دو (2، 2) حصے، اور چھ  بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو ایک، ایک (1، 1) حصہ دیا جائے گا۔   

لہٰذا جب مذکورہ دو منزلہ مکان فروخت ہو تو اس وقت اس کی جو بھی قیمت ملے ، اسے اسی مذکورہ بالا طریقے کے مطابق چار بیٹوں اور چھ بیٹیوں میں تقسیم کردیں۔

حوالہ جات
القرآن الکریم:
 { يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} [النساء: 11].
السراجی فی المیراث، ص5:
قال علماؤنا رحمهم الله  تعالی: تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة: الأول يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غیر تبذیر ولاتقتیر، ثم تقضی دیونه  من جمیع ما بقی من ماله،  ثم تنفذ وصایاه من ثلث ما بقی بعد الدین، ثم یقسم الباقی بین ورثته بالکتاب والسنة وإجماع الأمة.
السراجی فی المیراث، ص 38-36:  
العصبات النسبیة ثلاثة:  عصبة بنفسه، وعصبة بغیره، و عصبة مع غیره. أما العصبة بنفسه فکل ذکر لا تدخل فی نسبته إلی المیت أنثی، وهم أربعة أصناف: جزء المیت، و أصله، و جزء أبیه، و جزء جده، الأقرب فالأقرب، یرجحون بقرب الدرجة، أعنی أولاهم بالمیراث جزء المیت أی البنون ثم بنوهم و إن سفلوا…………… و أما العصبة بغیره فأربع من النسوة، و هن اللاتی فرضهن النصف و الثلثان، یصرن عصبة بإخوتهن کما ذکرنا فی حالاتهن.  

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

20/صفر المظفر/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب