74236 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
والد صاحب کی انتقال کے بعد ہمارے ایک بھائی محمد طارق نظامی کا انتقال حال ہی میں ہوا ہے جس کی کوئی اولاد نہیں۔ اب ان کی صرف بیوہ ، تین بھائی اور چھ بہنیں ہیں۔ اس کے والدین، دادا، دادی اور نانی کا انتقال اس کی زندگی میں ہوگیا تھا۔ اب والد صاحب کی میراث کی دو منزلہ مکان میں اس کا حصہ اس کے ورثا میں کیسے تقسیم ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
آپ کے بھائی محمد طارق نظامی مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں والد صاحب کی میراث کی دو منزلہ مکان میں اپنے جو دو (2) حصے چھوڑے ہیں، وہ اس کی میراث ہے۔ اس حصے کو محمد طارق نظامی مرحوم کے بقیہ ترکہ کے ساتھ ملایا جائے گا اور پورے ترکہ سے سب سے پہلے سوال (1) کے جواب میں بیان کردہ تین حقوق (اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات، قرض، اور وصیت،) اگر ہوں تو ان کو ادا کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو کچھ بچے گا، اسے کل سولہ (16) حصوں میں تقسیم کر کے اس کی بیوہ کو چار (4) حصے، تین بھائیوں میں سے ہر بھائی کو دو، دو (2، 2) حصے، اور چھ بہنوں میں سے ہر بہن کو ایک، ایک (1، 1) حصہ ملے گا۔
حوالہ جات
القرآن الکریم:
{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ } [النساء: 11].
السراجی فی المیراث، ص5 18:
أما للزوجات فحالتان: الربع للواحدة فصاعدة عند عدم الولد و ولد الابن و إن سفل.
السراجی فی المیراث، ص 38-36:
العصبات النسبیة ثلاثة: عصبة بنفسه، وعصبة بغیره، و عصبة مع غیره. أما العصبة بنفسه فکل ذکر لا تدخل فی نسبته إلی المیت أنثی، وهم أربعة أصناف: جزء المیت، و أصله، و جزء أبیه، و جزء جده، الأقرب فالأقرب، یرجحون بقرب الدرجة، أعنی أولاهم بالمیراث جزء المیت أی البنون ثم بنوهم و إن سفلوا، ثم أصله أی الأب ثم الجد أی أب الأب و إن علا، ثم جزء أبیه أی الإخوة ثم بنوهم و إن سفلوا…………… و أما العصبة بغیره فأربع من النسوة، و هن اللاتی فرضهن النصف و الثلثان، یصرن عصبة بإخوتهن کما ذکرنا فی حالاتهن.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
20/صفر المظفر/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |