021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں بعض بچوں کو خدمت کی وجہ سے ہبہ کرنا
74237ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

والد صاحب نے اپنی حیات میں ہی آج سے تقریبا 20 سال قبل اس مکان کے گراؤنڈ میں واقع 3 دکانیں ساتھ رہنے والے 3 بیٹوں (محمد خالد نظامی، محمد ضیاء الحق نظامی، محمد طارق نظامی) کے نام از خود لیز کروا کر قبضے کے ساتھ ان کو دے دی تھیں۔ والد صاحب نے دکانیں ان تین بیٹوں کو اس لیے دی تھیں کہ یہ تینوں ان کے ساتھ رہتے تھے، والد صاحب 20 سال پہلے بیمار ہوگئے تھے، ساری خدمت یہی تین بھائی کرتے تھے، جب صحت مند ہوگئے تو کہا کہ راشد تو یہاں رہتا نہیں، پوچھتا بھی نہیں، اس لیے یہ تین دکانیں آپ تینوں کو دے رہا ہوں۔  

کیا والد صاحب اپنی زندگی میں اپنی کچھ جائیداد اپنی مرضی سے بغیر طلب کے اپنی بعض اولاد کو دے سکتے ہیں یا نہیں؟ والد صاحب نے وصیت کی تھی کہ جو جیز جس کو دی گئی ہے وہ اسی کی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والد اگر اپنی جائیداد زندگی میں اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو یہ شرعًا ہبہ (گفٹ) ہوتا ہے، میراث نہیں۔ اس میں اصل اور بہتر تو یہ ہے کہ تمام اولاد، لڑکوں اور لڑکیوں سب کو برابر برابر حصہ دے، البتہ اگر میراث کے مطابق یعنی لڑکے کو لڑکی کا دگنا حصہ دے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ لیکن لڑکیوں کو بالکل محروم کرنا یا بہت معمولی حصہ دینا ناجائز ہے جس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوں گے۔ البتہ کسی بیٹے یا بیٹی کو اس کی خدمت، دینداری یا غربت کی وجہ سے کچھ زیادہ حصہ دیدیں تو اس کی گنجائش ہے۔ نیز اگر والد بغیرکسی وجہ کےکسی کو زیادہ حصہ دے اور باقاعدہ قبضہ بھی دے تو یہ ہبہ مکمل ہوجائے گا، اور وہ موہوب لہ اس حصے کا مالک بن جائےگا،اگرچہ ایسا کرنا جائز نہیں۔

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے والد صاحب نے واقعتا تین بیٹوں کو دکانیں خدمت اور فرمانبرداری کی وجہ سے دی ہیں، دوسرے بچوں کو نقصان پہنچانا مقصود نہیں تھا، اور تینوں بیٹوں کو ان دکانوں کا قبضہ بھی دیدیا تھا تو یہ ہبہ (گفٹ) درست اور مکمل ہوگیا تھا، وہ تینوں بیٹے ان دکانوں کے مالک بن گئے تھے؛ لہٰذا اب وہ دکانیں والد صاحب کی میراث میں  تقسیم نہیں ہوں گی۔

حوالہ جات
مشكاة المصابيح (2 / 183):
وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني نحلت ابني هذا غلاما فقال : " أكل ولدك نحلت مثله ؟ " قال  لا قال : " فأرجعه " . وفي رواية : أنه قال : " أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء ؟ " قال : بلى قال : " فلا إذن " . وفي رواية : أنه قال : أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله قال : " أعطيت سائر ولدك مثل هذا ؟ " قال : لا قال : " فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم " . قال : فرجع فرد عطيته . وفي رواية : أنه قال : " لا أشهد على جور ".
مرقاة المفاتيح (9 / 471):
 قال النووي: فيه استحباب التسوية بين الأولاد في الهبة فلا يفضل بعضهم على بعض سواء كانوا ذكورا أو إناثا. قال بعض أصحابنا: ينبغي أن يكون للذكر مثل حظ الانثيين، والصحيح الأول؛ لظاهر الحديث، فلو وهب بعضهم دون بعض فمذهب الشافعي ومالك وأبى حنيفة رحمهم الله تعالى أنه مكروه وليس بحرام والهبة صحيحة، وقال أحمد والثوري وإسحاق رحمهم الله وغيرهم هو حرام.
رد المحتار (4/ 444):
وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: "اتقوا الله واعدلوا في أولادكم"، فالعدل  من حقوق الأولاد فی العطایا، و الوقف عطیة، فیسوی بین الذکر   و الأنثی؛ لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض، روى عن  أبي حنيفة: لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين، وإن كانوا سواء يكره. وروى المعلى عن أبي يوسف: أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار، وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى. وقال محمد: يعطى للذكر ضعف الأنثى. وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف: وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا، والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم، وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

20/صفر المظفر/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب