021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کلی ملیزئی میں نماز جمعہ (قریہ کبیرہ اور مصر کی تحدید)
74705نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

سوال : بصد آداب وتکریمات رقعہ دربابت جمعہ وعیدین کلی ملیزئی پیش خدمت ہے۔

آج سے تقریبا چار پانچ سال قبل گاؤں کےمقامی علمائے کرام نے جمعہ وعیدین کے بارے میں اجلاس بلایا جس میں جمعہ کے شروع کرنے کےبارے میں مندرجہ ذیل حکمت عملی طے کی گئی :

پہلا مرحلہ:

استفتاء بنا کر مختلف دارالافتاء کو بھیجا گیا ،صورت مسئولہ کے پیش نظر تمام دارالافتاء سے کلی ملیزئی میں وجوب کا فتوی آیا ،جن میں سرفہرست جامعة الرشید،جامعہ دارالعلوم  کراچی، جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی، جامعہ اکوڑہ خٹک ،جامعہ صدیقیہ مولانا منظور احمد مینگل صاحب،اشرف المدارس کراچی وغیرہ  تقریبا18 فتاوی آئے۔

دوسرا مرحلہ:

کوئٹہ ،پشین اور کلی ملیزئی  کے قرب وجوارمیں آباد بڑے بڑے گاؤں جیسے کربلا ،علیزئی وغیرہ کے دارالافتاء،مفتیان کرام اور شیوخ عظام سےرابطہ کیا گیا،جن میں سرفہرست کوئٹہ کے دارالافتاء کے رئیس مفتی روزی خان صاحب ،پیر طریقت مفتی سیف الرحمن صاحب فاضل دارالعلوم دیوبند وغیرہ اور پشین شہر کے روح رواں شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب،شیخ الحدیث مولانا موسی گل صاحب،قاضی پشین مولاناہمایوں صاحب وغیرہ ان تمام حضرات اور دارالافتاء نے کلی ملیزئی میں نماز جمعہ وعیدین کے بارے میں وجوب کے فتاوی دیے ہیں۔

تیسرا مرحلہ:

گاؤں کے اکثر مشران سے ان کے گھر جاجا کر دستخط لیے گئے اور پشین شہر کے ڈی سی سے اجازت نامہ حاصل کیا گیا۔

چوتھا مرحلہ:

گاؤں کے 17آئمہ مساجد کا اجلاس بلایا ،اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ نیا استفتاءتیار کرکے بھیجا جائے اور حق کے سامنے رکاوٹ نہ ڈالنے پر انہوں نے دستخط  بھی کیے، یہاں تک تو تمام مراحل بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ طے پائے۔اچانک ہماری ہی بدقسمتی سے ہمارے ساتھی جو جمعہ کے داعی تھے،اس 5سالہ مہم میں ہمارے ساتھ تھے،جامعة الرشید کے شعبہ حفظ وناظرہ کے استاد قاری رفیع اللہ صاحب نے اختلاف کیا ،گاؤں کے ایک ایک مولوی اورامام کو فون کرکے بدظن کیا ۔جامعة الرشید کے اس پاک نام کو اتنی بے دردی کے ساتھ استعمال کیا جس سے گاؤں میں انتہائی  نفرت، عداوت اور انتشار پیدا ہوا۔

پانچواں مرحلہ:

باالآخر ہم نے  افغانستان کے مہاجر علماء  کا بنایا ہوا استفتاء  کوئٹہ شہر کے مشہور دارالافتاء  ربانیہ  مفتی روزی خان صاحب کو بھیجا ،انہوں نے اپنے نائب مفتی ،مفتی محمد کاکازئی صاحب کو سروے کےلیے بھیجا،چند روز   بعد انہی کے بنائےہوئے استفتاء کا جواب آیا کہ ملیزئی میں جمعہ وعیدین واجب ہیں،اور یہ سوال ہم نے دارالعلوم کراچی اور جامعہ بنوری ٹاؤن بھیجا،ان کی طرف سے بھی جواب وجوب کا آیا ہے ، یہ ساتھ میں لف ہیں۔لیکن اس سوال کاجواب جامعة الرشید کی طرف سے عدم جواز کا آیا۔ہم تو ششدر رہ گئے کہ دس ہزار سے اوپر کی آبادی  اور 50 سے زائد دکانیں ہوں آیا اس میں بھی عدم جواز آسکتا ہے؟ بدقسمتی سے مفتی محمد بن مفتی عبد الرحیم  صاحب مدظلہ العالی کو ملیزئی  کی تفصیلات دینے والا قاری رفیع اللہ صاحب تھے،جن کا جمع کیا ہوا سوال بھی آپ ملاحظہ فرمائیں،حوالہ نمبر42/13011اور ہمارا سوال نمبر42/13010ہے،سوال جواب کے نمبروں میں بھی فرق آرہا ہے ،قاری صاحب موصوف نے اہل بدع کے ساتھ مل کر گاؤں کے آئمہ اور شیوخ کو ڈرانے دھمکانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ،اتفاق کا شیرازہ بکھیر دیا ۔

الغرض ہم نے یوم بدر بروزجمعہ رمضان المبارک کو 800 سال بعد کلی ملیزئی میں جمعہ وعیدین کا اہتمام کیا ،الحمد للہ ان چھ جمعوں میں اب تک نہ بحث ومباحثہ نہ جنگ وجھگڑا کی نوبت آئی ۔سوائے تقسیم کے ۔ اور ان شاء اللہ ہم تقسیم کو ختم کرنے کے مسلسل درپے ہیں۔

آپ حضرات سے اتنی گذارش کی جاتی ہے کہ آپ کی طرف سے عدم جواز کے آئے ہوئے فتوی  پر نظر ثانی کی جائے،آپ کے اخلاص اور صداقت پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں،اس کارخیر میں ہمارے ساتھ تعاون فرمائیں تاکہ یہ تقسیم یکسر ختم ہوجائے۔ اور قیامت تک آپ بھی اس صدقہ جاریہ میں شریک ہوجائیں۔

1۔اختلاف کرنے والوں میں اکثر اہل بدع،رسم ورواج کے داعی اور افغانی ملا ہیں۔

2۔آپ کےلاحقہ اور سابقہ فتوی میں تطبیق دی جائے ،جواز کا سابقہ فتوی سید نویداللہ نے لکھا ہے۔

3۔جدید فتوی( جواز کی صورت) میں قدیم فتوی( عدم جوازوالے) کی مناسب طریقے سے تردید کی جائے یا غلط بیانی کی نشاندہی کی جائے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین رہے کہ مفتی  عالم الغیب نہیں ہو تا ،اس کے سامنے  سوال میں  جو  صورت بیان کی گئی  ہوتی ہےیا مستفتی براہ راست جو صورتحال بیان کررہاہوتا ہے ، اس کے مطابق  وہ جواب  دیتاہے ،سوالنامہ میں درست صورت بیان کرنے  کی  تمام تر ذمہ داری   سائل پر ہے ،لہذا اگر سوال حقیقت کے مطابق  نہ ہو تو  جواب خود بخود کا لعدم شمار ہوتا ہے۔

جمعہ کے جواز کے حوالے سے پہلا فتوی جو یہاں سے جاری ہوا وہ سوال میں موجودصورت کی بنیاد پر تھا،جبکہ بعدمیں جاری ہونے والے فتوی میں، سوال کی نوعیت کی تبدیلی،نیز مستفتی کی زبانی وضاحت کی بناء پر جواب میں بھی تبدیلی آئی ہے،مثلا دونوں سوالوں میں مندرجہ ذیل تضادات تھے:

1۔ پہلے والے استفتاء میں دکانوں کی  تعداد ذکر ہے،اتصال اور عدم اتصال کی وضاحت نہیں ہے،دوسرے استفتاء میں عدم اتصال کی تصریح ہے۔

2۔پہلے استفتاء میں دستیاب اشیاء کی ایک لمبی فہر ست ذکر کی گئی ہے،جبکہ دوسرےمیں  اس کی وضاحت ہے   کہ ضروریات کی چیزیں محدود ملتی ہیں۔

3۔ مساجد کی تعداد پہلے استفتاء میں 17 جبکہ دوسرے میں 15 ذکر ہے۔

4۔ پہلے استفتاء میں یہ ذکر ہے :" گاؤں میں  ایک  سرکاری ہسپتال  ہے جس میں ڈاکٹر ،دائی ،دوا اور بنیادی علاج  موجود ہوتا ہے ،اور 3کلینک،ڈسپنسر،ڈاکٹر اور حکیم  ہیں۔"

دوسرے میں  ہے:"گاؤں میں ایک سرکاری ہسپتال ہے،لیکن برائے نام،جس میں علاج ومعالجہ کا خاص بندوبست نہیں،البتہ اس میں ڈسپنسر اور ڈاکٹر موجود ہوتاہے"

5۔پہلے استفتاء میں موجود ہے  کہ ملیزئی روڈ پر تھانہ اور حفاظت کے لیے باقاعدہ ایک الرٹ چوکی ہے،تھانہ پوری

طرح فعال نہیں، دوسرے استفتاء میں تھانے کاذکر ہی نہیں ہے۔

6۔ پہلے استفتاء میں یہ مذکور ہے کہ ہروقت کرایے کےلیے (چھوٹی ،بڑی گاڑیاں ) دستیاب ہیں،دوسرے استفتاء میں اس کا  تذکرہ نہیں۔

7۔پہلے استفتاء میں بعض چیزوں کا اثبات ہے،مثلا : گوشت، مستری،تھانہ وغیرہ، دوسرے استفتاء میں ان کی نفی ہے،اسی طرح دوسرے  استفتاء میں بہت سی ایسی اشیاء کی وضاحت کے ساتھ نفی کی گئی ہے جن کا پہلے استفتا ء میں تذکرہ ہی موجود نہیں تھا۔

اب پرانے استفتاء میں موجودسوال اوراس جناب فاروق حلیم صاحب کی جانب سے اس نئی وضاحت کے بعدہماری رائے یہ ہے کہ کلی ملیزئی قریہ کبیرہ ہے اس جگہ کی ذکر کردہ تفصیل کے مطابق یہاں ضرورت کی تقریبا ساری چیزیںمل جاتی ہیں۔لہذا اس میں جمعہ وعیدین کی نماز درست ہے۔

قریہ کبیرہ حکم کے اعتبارسے مصر کے ساتھ ملحق ہے،فقہاء کرام سے مصر کی مختلف تعریفات منقول ہیں، ملاحظہ ہوں:۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ایک تعریف یہ نقل کی گئی ہے:

"هو بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، ويرجع الناس إليه فيما وقعت لهم من الحوادث."

ترجمہ :وہ بڑا شہر جس میں گلیاں اور بازار ہوں،اُس کےماتحت کئی دیہات ہوں اور لوگ اپنے پیش آمدہ حوادث میں اس کی طرف رجوع کرتے ہوں۔

امام ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

 "كل موضع فيه أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر۔"

ترجمہ :وہ جگہ جہاں امیر و قاضی مقرر ہو جو لوگوں پر احکام کو نافذ کرتا ہو ،اور حدود کو قائم کرتا ہو تو وہ مصر ہے۔

امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے نوادر ابن شجاع میں یہ منقول ہے :

"إذا كان في القرية عشرة آلاف فهو مصر."

ترجمہ :جس بستی میں دس ہزار افراد ہوں تو وہ مصر ہے۔

امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"كل موضع مصره الإمام فهو مصر حتى إنه لو بعث إلى قرية نائبا إلى إقامة الحدود والقصاص يصير مصرا."

ترجمہ :ہر وہ جگہ جس کو اِمام مصر بنادے وہ مصر ہے، یہاں تک کہ اگر کسی بستی میں اِمام حدود و قصاص کے قائم کرنے کیلئے اپنا نائب بھیجے تو وہ مصر ہے۔

بعض فقہاء ِ احناف فرماتے ہیں:

" المصر ما يعيش فيه كل صانع بصناعته ولا يحتاج إلى التحول إلى صنعة أخرى."

ترجمہ :وہ جگہ جہاں ہر کاریگر اپنی صنعت و حرفت کے ساتھ زندگی گزارتا ہو اور کسی دوسری صنعت کا محتاج نہ ہو ۔

مستصفی میں یہ منقول ہے :

 "إذا وجدت فيه حوائج الدين وهو القاضي والمفتي والسلطان فهو مصر جامع ۔"

ترجمہ :جب تمہیں کسی جگہ دین کی تمام حوائج و ضروریات یعنی قاضی ،مفتی ،سلطان، مل جائیں تو وہ مصر ہے۔

مصر کی راجح تعریف :

" بَلْدَةٌ كَبِيرَةٌ فِيهَا سِكَكٌ وَأَسْوَاقٌ وَلَهَا رَسَاتِيقُ وَفِيهَا وَالٍ يَقْدِرُ عَلَى إنْصَافِ الْمَظْلُومِ مِنْ الظَّالِمِ بِحِشْمَتِهِ وَعِلْمِهِ أَوْ عِلْمِ غَيْرِهِ يَرْجِعُ النَّاسُ إلَيْهِ فِيمَا يَقَعُ مِنْ الْحَوَادِثِ۔" (شامیہ :2/137)

ترجمہ :وہ بڑا شہر جس میں کئی گلیاں اور بازار ہوں اور اس کے ماتحت دیہات ہوں اور وہاں کوئی حاکم ہو جو اپنی جاہ و حشمت سے اور اپنے یا کسی اور کے علم کے ذریعہ ظالم سے مظلوم کا اِنصاف لینے پر قادر ہو اور لوگ اپنے پیش آمدہ حوادث میں اُس کی طرف رجوع کرتے ہوں۔

اس راجح تعریف کی بناء پراس سے پہلے دارالافتاء جامعة الرشید سے جاری ہونے والے جوابات میں اس بات کو مدنظر رکھاجاتاتھا کہ مصر کی تعریف میں بازار کی عرفی تعریف یہ ہے کہ دورویہ  آپس میں متصل دوکانیں ہوں،چنانچہ جہاں ایسی صورت نہیں ہوتی تھی وہاں کے بارے میں جمعہ کے عدم وجوب کا جواب دیاجاتا تھا۔

احسن الفتاوی(4/177) کا ایک جواب ملاحظہ فرمائیں۔:

" مصر کی اصل تعریف یعنی حد تام یہ ہے کہ اس کو عرف عام میں مصر شمارکیاجاتاہو،کمانقلہ المحرر عن الامام الثوری رحمہ اللہ ،اور عرف عام میں مصریت کےلیے لازم ہے کہ گلی کوچے ہوں،بازار میں دورویہ  آپس میں متصل دوکانیں ہوں،عمارتیں پختہ ہوں اور ضرورت کی اکثر اشیاء مل سکتی ہوں،حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالی سے منقول تعریف سے بھی اصل مقصود یہی ہے ،اس تعریف میں مذکور دوسرے امور اور دوسری تعریفیں مصر کی حد تام نہیں ،بلکہ رسوم ہیں جو ہر زمان ومکان میں  بدلتی رہتی ہیں،درایة بھی ظاہر اور مسلم ہے کہ جن الفاظ کے شریعت نے خود کوئی مخصوص معنی متعین نہیں کئے وہ اصل لغت اور عرف عام پر ہی محمول ہوتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرف عام سے الگ مصر کے کوئی خاص معنی متعین نہیں فرمائے،اس لیے یہ لفظ عرف عام پر ہی رہے گا،حضرات فقہاء رحمہم اللہ تعالی نے اپنے اپنے زمانہ میں مصر کی علامات کے مطابق مختلف تعریفیں بیان فرمائی ہیں،اس لیے نہ ان تعریفوں میں کوئی تضاد ہے اور نہ ہی ان کے وجود وعدم پر مصریت کا مدار۔"

تاہم غورو خوص کے بعد قریہ کبیرہ میں بازار کے بارے میں یہ دوصورتیں طے ہوئیں:

1۔جہا ں متصل دورویہ دکانیں ہوں۔

2۔جہاں اتنی دکانیں ہوں( اگرچہ متفرق ہوں) جن سے مقامی افراد کی اکثر ضروریات زندگی سے متعلق اشیاء مل جاتی ہوں۔

ضروریات زندگی میں تین چیزیں اہم ہیں:

1۔کھانے، پینے اور پہننے کی اشیاء موجود ہوں۔

2۔دینی وعصری تعلیم کے مراکزہوں۔کم از کم میٹرک تک تعلیم ہوتی ہو۔

3۔صحت کے مراکز۔جہاں بنیادی علاج معالجہ کی سہولت موجود ہو۔

یہ اس بناء پر کہ قریہ کبیرہ بہرحال اپنی ہیئت کے اعتبارسے مصر سے چھوٹا ہوتا ہے ،لہذا اس میں وہ تمام چیزیں بطور شرط ملحوظ رکھنا مشکل ہےجو مصر کی خاصیت یا اس کے لیے ضروری ہوا کرتی ہیں۔

حضرات اکابر رحمہم اللہ تعالی کے فتاوی میں قریہ کبیرہ کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات پرغور کرنے سے معلوم ہوا کہ ایسی جگہ جہاں معتددبہ آبادی اور دکانیں ہوں اور مقامی لوگوں کی اکثر اشیاء ضرورت پوری ہورہی ہوں وہ بھی قریہ کبیرہ ہے،اور وہاں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز ہے۔چنانچہ چندفتاوی ملاحظہ ہوں۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند(5/78):

"شہر اور قصبہ اور بڑے قریہ میں جس میں دو چار ہزار آدمی آباد ہوں اور ضروری اشیاء کی دوکانیں ہوں وہاں جمعہ واجب ہے اور اداء ہوتا ہے۔"

فتاوی محمودیہ(8/145):

"بڑا گاؤں وہ ہے جس میں گلی کوچے ہوں،بازار ہو،روزمرہ کی ضروریات ملتی ہوں ،تین چار ہزار آبادی ہو۔"

دوسری جگہ (8/66) میں تحریر فرماتے ہیں:

"جمعہ فی القری اور قریہ کی تعریف"

سوال:جمعہ فی القری جائز ہے یانہیں؟ قریہ اور شہر کی تعریف مفصل تحریر فرمائیں۔

جواب:قریہ صغیرہ میں جمعہ جائز نہیں ،قریہ کبیرہ میں جائز ہے ۔قریہ اور شہر کی تعریف میں عرف کے اعتبار سے تغیر ہوتا رہتا ہے،اس لیے کہ ماہیت کی تعریف تو مقصود نہیں ہے،آثار وعلامات کے اعتبار سے تعریف کی جاتی ہے،جس سے دونوں میں فی الجملہ امتیاز قائم ہوجائے ،آثار وعلامات کا تغیر یہی ہے ،مثلا جس جگہ جمعہ کی اجازت ہو اس کے متعلق اس طرح علامات بتائی جائیں کہ وہاں گلی کوچے ہوں ،ضروری پیشہ ور رہتے ہوں،ڈاکخانہ ہو،شفاخانہ ہو یا حکیم یا ڈاکٹر ہو،نزاعات کا فیصلہ کرنے لیے سرکاری حاکم یا پنچایت ہو،بازار ہو،روزمرہ کی ضروریات ہمیشہ ملتی ہوں۔ایسانہ ہوکہ  ہفتہ میں ایک دن بازار لگا ،باہر سے دوکاندار سامان لائے ،ان سے ضروریات خرید لی گئیں ،وہ چلے گئے ،بازار ختم ہوگیا ،پھر ضروریات خریدنے کےلیے دوسرے بازار کا انتظار کرنا پڑے ،کم وبیش ڈھائی ہزار کی آبادی ہو۔یہ تعریف حقیقی نہیں،جس سے ادراک بالکنہ حاصل ہو۔

فتاوی عثمانی(1/513):

سوال:  ہمارے گاؤں میں ڈاکخانہ اور یونین کونسل کا دفتر موجود ہے اور ہمارا علاقہ ملیر سٹی سے چودہ میل دور ہے،

سرکاری اعداد مردم شماری چار ہزار ہے، روز مرہ کی زندگی کے سازو سامان بھی مل رہے ہیں الخ۔ کیا جمعہ ایسی جگہ جائز ہے؟

جواب:  سوال میں بستی کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں ان کے پیش نظر اس بستی میں نماز جمہ درست ہے ، فقط۔

فتاوی فریدیہ(3/165):

"چار ہزار افراد پر مشتمل آبادی جہاں سولہ دکانیں ہوں ،میں جمعہ کا حکم"

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کربلا ضلع پشین میں چار ہزار لوگ رہتے ہیں، ہر قسم

سہولیات، سکول، ہسپتال، ڈاکخانہ اور تقریباً سولہ دکانیں بھی ہیں کیا اس مقام میں جمعہ درست ہے؟

بینواتوجرواالمستفتی: عبد الرحمن کربلا ضلع پشین…۱۹۸۴ء/۸/۲۵

الجواب: یہ مقام قریہ کبیرہ ہے اس میں نماز جمعہ قائم کرنا جائزہے۔

 کما فی ردالمحتار ص۷۴۸ جلد۱ عن القہستانی ، وعبارۃ القہستانی وتقع فرضا فی القصبات والقریٰ الکبیرۃ التی فیہا أسواق انتہیٰ۔

قلت: والمراد من الأسواق الحوانیت التی تکفی لحوائج ھذا المقام ورساتیقھا، لا الأسواق المعروفۃ فی ھذا الزمان فانھا لم تکن فی الحرمین الشریفین أیضا فی تلک الأعصار۔ وھوالموفق۔ وفی المنہاج : قلت: الحوانیت المتعددۃ التی تکفی لحوائج أھل ھذہ البلدۃ وأھل الرساتیق المتعلقۃ بہا تقوم مقامالأسواق فی أصل الغرض۔ (منہاج السنن شرح جامع السنن: ص۴۷ جلد۳ باب ماجاء منکم یؤتی الی الجمعۃ)"۔

امداد الفتاوی( 1/452):

"ہماری نظر اس پر ہے کہ اس ملک کے عرف اور عقلاء اور حکام کی اصطلاح یہ  ہے کہ چار ہزار لوگوں کی آبادی کو قصبہ شمار کرتے ہیں،اور فقہاء کے اس قول پر بھی نظر ہے کہ شہر وہ ہے جس میں بازار ہوں ،اس قریہ کبیرہ(قصبہ) کی تعریف کے مطابق میرافتوی دینے کا معمول یہ ہے کہ ایسا مقام  جمعہ کے قائم ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے ،پس ہر وہ جگہ کہ جس میں یہ دوشرطیں پائی جائیں،جمعہ قائم کرنا جائز ہے  اور اس سے زیادہ ہمیں تحقیق نہیں۔"

امداد الفتاوی( 1/452):

"اور کبیرہ وصغیرہ میں مابہ الفرق  اگر آبادی کی مقدار لی جاوے تو اس کا مدار عرف پر ہوگا اور عرف کے تتبع سے

معلوم ہوا کہ حکام وقت جو کہ حکمائے تمدن بھی ہیں ،چاہر ہزار کی آبادی کو قصبہ میں شمار کرتے ہیں،اور چار ہزار کے

قریب بوجہ معتبر نہ ہونے کسر کے ،حکم میں چار ہزار کے ہے۔"

"اور بلدہ ایک امر عرفی ہے ،خود امام صاحب کا قاعدہ ہے کہ جس میں تحدید شرعی نہ ہو رائے مبتلی بہ پر اس کا مدار ہوتاہے،اور جس طرح آب کثیر میں دہ دردہ انتظام کے لیے مقرر کیا گیا ،اس طرح یہاں انتظام کےلیے حکمائے تمدن یعنی حکام وقت کی عرف واصطلاح  کا اعتبار ہوگااور وہ چار ہزار آدمی کی آبادی کو قصبہ کہتے ہیں اور قصبہ بتصریح فقہاء حکم مصر میں ہے،اور یہ تعریف ھومالایسع الخ حدتام نہیں ،رسم ناقص ہے ،اس وقت یہ حالت امصار کی تھی۔"

دوسری بات یہ ہے کہ یہاں اب مجاز آفیسر سے جمعہ پڑھنے کی اجازت حاصل کی گئی ہے،اس لیے جمعہ پڑھنا جائز ہے ،کیونکہ ایسی جگہ جس کا قریہ کبیرہ ہونا مختلف فیہ ہو یعنی بعض کے نزدیک وہ قریہ کبیرہ ہو اور بعض کے نزدیک وہ قریہ صغیرہ ، اگرامام جمعہ کا حکم دیدے تو ماننا لازم ہوگا،کیونکہ مختلف فیہ مسئلہ میں قضاء قاضی رافع للخلاف ہوتاہے ، اس لیے مجاز آفیسر سے اجازت لینے کے بعد یہاں جمعہ جائز ہے۔

بعض حضرات کے نزدیک امام المسلمین کی عدم موجودگی میں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں،تو یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ جمعہ کی اقامت کے لیےامام المسلمین یا اس کے نائب یا اس کی طرف سے جمعہ قائم کرنے کے لیے مامور شخص کی شرط کی اصل وجہامامت کبری کی تعظیمکی برقراری اور مسلمانوں کو امامت جمعہ کے مسئلہ پر نزاع و اختلاف سے بچانا ہے،موجودہ زمانہمیںامت مسلمہ ایک عرصے سےاسلا می خلافت کی نعمت سےمحروم ہے،ان حالات میں جمعہ کے لیے سلطان وغیرہ کی شرط عائد کرنا عملا جمعہسے مسلمانوںکو محروم کردینے کے مترادف ہوگا۔اس لیے اب ہمارے علم کی حد تک تمام اہل افتاء اس شرط کے حوالے سے مسلمانوں کےمنتخب کردہ امام کو ہی کافی سمجھتے ہیں اور امام ِوقت یعنی حکمران کی شرط نہیں لگاتے ہیں۔

متقدمین کے ہاں بھی اس کی نظیر ملتی ہے کہ بعض خصوصی حالات میں فقہاء نے امام یا اس کے نائب کی شرط کو ضروری نہیں سمجھا ہے ،والی شہر فوت ہوجائے اور امام سے اجازت کا حصول دشوار ہو اس درمیان جمعہ آجاے، تو لوگ بطور خود نماز جمعہ ادا کرلیں گے ،بلکہ عالمگیری میں ظہیریہ سے نقل کیا گیا ہےکہ امام کی طرف سے اگر جمعہ سے روکا جائےاور لوگ ایک شخص پر متفق ہو کر نماز جمعہ ادا کرلیں ،تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

حوالہ جات
الموسوعة الفقهية الكويتية (33/ 160):
1 - القرية في اللغة: كل مكان اتصلت به الأبنية واتخذ قرارا.
وتطلق القرية على المدن وغيرها، والقريتان المذكورتان في قوله تعالى {وقالوا لولا نزل هذا القرآن على رجل من القريتين عظيم}  هما مكة المكرمة شرفها الله والطائف، كما تطلق على المساكن والأبنية والضياع  .
واصطلاحا: عرفها القليوبي من الشافعية بأنها العمارة المجتمعة التي ليس فيها حاكم شرعي ولا شرطي ولا أسواق للمعاملة  .
وعرفها الكاساني من الحنفية بأنها البلدة العظيمة إلا أنها دون المصر .
2 - المصر في اللغة: اسم لكل بلد محصور أي محدود تقام فيها الدور والأسواق والمدارس وغيرها من المرافق العامة، ويقسم فيها الفيء والصدقات.
واختلفوا في معناها الاصطلاحي، فعن أبي حنيفة رحمه الله: أن المصر بلدة كبيرة فيها سكک وأسواق، ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره، والناس يرجعون في الحوادث إليه.
قال الكرخي: إن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام.
وقال القليوبي: المصر العمارة المجتمعة الذي فيه حاكم شرعي وشرطي وأسواق للمعاملات.
والمصر أعظم من القرية  .
 وفی بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 259):
"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت.
أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها .....
أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة، وفي رواية قال: إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصلي بهم الجمعة، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها، وقال بعض أصحابنا: المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة، وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال: أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام، وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما.
وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.....
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/ 368):
 وبلاد الإسلام التي في أيدي الكفرة لا شك أنها بلاد الإسلام لا بلاد الحرب؛ لأنهم لم يظهروا فيها حكم الكفر، والقضاة مسلمون والملوك الذين يطيعونهم عن ضرورة مسلمون ولو كانت عن غير ضرورة منهم ففساق وكل مصر فيه وال من جهتهم تجوز فيه إقامة الجمع والأعياد وأخذ الخراج وتقليد القضاة، وتزويج الأيامى لاستيلاء المسلم عليه وأما إطاعة الكفر فذاك مخادعة، وأما بلاد عليها ولاة كفار فيجوز للمسلمين إقامة الجمع والأعياد ويصير القاضي قاضيا بتراضي المسلمين، فيجب عليهم أن يلتمسوا واليا مسلما منهم،ثم إن الظاهر أن البلاد التي ليست تحت حكم سلطان بل لهم أمير منهم مستقل بالحكم عليهم بالتغلب أو باتفاقهم عليه يكون ذلك الأمير في حكم السلطان فيصح منه تولية القاضي عليهم.
وفی فیض الباری(2/329):
واعلم ان القریۃ والمصر من الأشیاء العرفیۃ التی لاتکاد تنضبط بحال وان نص،ولذا ترک الفقھاء المصر علی العرف۔
وفی الکوکب الدری(1/199):
ولیس ھذا کلہ تحدید ا لہ بل اشارۃ الی تعیینہ وتقریب لہ الی الأذھان ،وحاصلہ ادارۃ الأمر علی رأی أھل کل زمان فی عدھم المعمورۃ مصرا،فما ھو مصر فی عرفھم جازت الجمعۃ فیہ،ومالیس بمصر لم یجز فیہ،الا أن یکون  فناء المصر

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

23/ربیع الثانی1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے