74615 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
جب وراثت کے معاملات پر بات ہورہی تھی تو یہ بھی طے پایا تھا کہ مرحومہ کے ذمے جو نمازیں تھی ان کا کفارہ بھی اسی فنڈ سے ادا کیا جائے گا،لیکن اب تاخیری حربے اپنا کر اس معاملے کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا ہے،کیا اس پر تمام ورثہ کی پکڑ ہوگی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر مرحومہ نے اپنی قضاء نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہیں کی تو پھر ورثہ کے ذمے ان کی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا لازم نہیں،البتہ اگر وہ باہمی رضامندی سے ازخود دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
اوراگر مرحومہ نے اپنی قضاء نمازوں کے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی تھی تو پھر تہائی ترکہ تک ان کی وصیت پر عمل کرنا لازم ہے،اگر نمازوں کے فدیہ کی مقدار تہائی ترکہ سے زیادہ بنتی ہو تو ورثہ کے ذمے تہائی سے زیادہ کی ادائیگی لازم نہیں۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (2/ 72):
"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله) ".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ :"(قوله يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد.
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
23/ربیع الثانی1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |