021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حنفیہ کے ہاں تابعی کے قول کی اصولی حیثیت
75161حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

فروعی مسائل میں حنفیہ کے نزدیک تابعی کے قول کی اصولی حیثیت کیا ہے، کیونکہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے اعلاء السنن میں بعض جگہوں پر لکھا ہے کہ حنفیہ کے نزدیک تابعی کا قول مالایدرک بالقیاس میں بحکمِ مرفوع ہوتا ہے، نیز یہ بھی واضح کریں کہ کیا حنفیہ کے نزدیک تابعی کا قول حجت ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جواب سے پہلے  بطور تمہید  دو باتیں  ملاحظہ فرمائیں:

نمبر1:قولِ تابعی کی حیثیت کے حوالے سے محدثین کرام  رحمہم اللہ  نے مصطلحاتِ حدیث پر لکھی  گئی کتب میں تین  جگہوں پر بحث کی ہے: ایک حدیثِ مقطوع  کے بیان میں، دوسرا مرفوع  کی تعریف بیان کرتے ہوئے  مرفو عِ حکمی کے بیان میں اور تیسرا قول تابعی کے  عنوان  کے تحت ۔

نمبر2:فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ  کے اصولِ حدیث عام طور پر اصولِ فقہ پر لکھی گئی کتب کی بحث السنۃ کے تحت ذکر کیے گئے ہیں، جیسے  "اصول السرخسی"، "تقویم الادلہ للدبوسی"، "التقریر والتحبیرلابن الامیر الحاج"  اور "اصول بزدوی" وغیرہ  ، البتہ  بعض حنفی   فقہاء اور محدثین کرام  رحمہم اللہ نے مصطلحاتِ حدیث  پر مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں، جیسے  علامہ عبدالرحمن بن ابی بکر المعروف بابن عینی کی "شرح الفیہ العراقی"، شیخ الاسلام رضی الدین حلبی کی "قفو الاثر" ، ملا علی قاری کی" شرح نخبہ الفکر "اور علامہ  عبدالحي لكھنوی کی "ظفر الامانی"وغيره۔نیز حنفیہ کے بعض اصولِ حدیث ظاہر الروایہ ، امام محمدرحمہ اللہ کی دیگر کتب جیسے کتاب الحجہ: علی اہل المدینہ  اور مبسوط للسرخسی میں بھی ملتے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ فقہائے حنفیہ اور محدثین کرام رحمہم اللہ کا   اکثر  اصولِ حدیث  میں اتفاق ہے، البتہ استدلال  اور استنباط سے متعلق  بعض اصولِ حدیث میں اختلاف ہے، جیسے  مرسل کا حجت ہونا وغیرہ۔ 

مذكوره   بالا تمہید کے بعد  تابعی  کے اقوال  کی مختلف صورتیں اور ان  کی حیثیت و محدثین کرام فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کے اقوال کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں:

۱۔ پہلی صورت: تابعی کا صراحتاً نبی کریم ﷺ کی  طرف نسبت کرنا:

اگر تابعی اپنی روایت یا  اپنے قول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صراحتاً نسبت  کرے تو وہ بالاتفاق  مرفوع ہو گا،  پھر اگر صحابی کا نام لے تو مرفوع متصل  اور صحابی کا واسطہ نہ ذکرکرے تو یہ روایت مرفوع مرسل شمار ہو گی، جیسے تابعی کسی  صحابی سے  یا کوئی تبع تابعی  کسی تابعی سے روایت بیان کرنے کے  بعد’’رفعہ، یبلغ بہ ،  ینمیہ، رواہ مرفوعاً یا قال او فعل رسول اللہﷺ کذا وغیرہ ‘‘ جیسے الفاظ کہے تو اس کو مرفوع پر ہی محمول کیا جائے گا، پھرصحابی کی طرف نسبت کرنے  کی صورت میں مرفوع متصل، ورنہ یہ روایت مرفوع مرسل سمجھی جائے گی:

الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي (ص: 415) أبو بكر أحمد بن علي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463ھ) المكتبة العلمية - المدينة المنورة:

باب في قول التابعي عن الصحابي: يرفع الحديث وينميه ويبلغ به ورواية أخبرنا أبو حازم عمر بن أحمد بن إبراهيم العبدوي إملاء بنيسابور، أنا أبو أحمد الحافظ، أنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي، ثنا جدي أحمد بن منيع، ثنا مروان بن شجاع الخصيفي , عن سالم الأفطس , عن سعيد بن جبير , عن ابن عباس , قال: " الشفاء في ثلاثة: شرطة محجم , ولعقة من عسل , وكية من نار , وأنهى أمتي عن الكي «رفع الحديث»

نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر ت عتر (ص: 82) أبو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) مطبعة الصباح، دمشق:

والثاني: وهو ما سقط من آخره من بعد التابعي هو المرسل: وصورته أن يقول التابعي سواء كان كبيرا أو  صغيرا قال رسول الله صلى الله عليه [وآله] وسلم كذا، أو : فعل كذا، أو : فعل بحضرته كذا، أو نحو ذلك.

توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار (1/ 231) محمد بن إسماعيل الصنعاني، المعروف كأسلافه بالأمير (المتوفى: 1182ھ) دار الكتب العلمية, بيروت:

قال الحافظ ابن حجر وكذا قوله يرويه أو رفعه أو مرفوعا وكذا قوله: رواه وعبارة الزين في نظمه: وقولهم يرفعه يبلغ به ... رواية ينميه رفع فانتبه۔

وقد ذكر ابن الصلاح أمثلة ذلك "قال زين الدين: وإن قيلت هذه الألفاظ عن التابعي فمرسل بخلاف قول التابعي من السنة ففيه خلاف كما يأتي" هذا كلام ابن الصلاح فإنه قال بعد قوله صريحا قلت: وإذا قال الراوي عن التابعي يرفع الحديث أو يبلغ به فذلك أيضا مرفوع ولكنه مرفوع مرسل والله أعلم.

 

 

دوسری صورت:تابعی کا ذو احتمالین لفظ استعمال کرنا:

اگر تابعی  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صراحتاً  نسبت نہ کرے، بلکہ ایسے الفاظ ذکرکرے، جن میں مرفوع اور موقوف   ہونے کے  دونوں احتمال ہوں، جیسے ’’من السنۃکذا، ٲمرنا بکذااور نھینا عن کذا‘‘ وغیرہ ۔اس صورت میں محدثین کرام رحمہم اللہ کا  اختلاف  ہے، بعض حضرات  کے  نزدیک یہ قول موقوف  شمار ہو گا، اس قول کو علامہ زرکشی(متوفی:794ھ) نے النكت علی مقدمۃ ابن الصلاح میں، علامہ ابن ملقن (متوفی:804ھ) نے المقنع فی علوم الحدیث میں، علامہ ابن عینی (متوفی:893ھ) نے شرح الفیۃ العراقی میں اور علامہ سخاوی (متوفی:902ھ) نے "فتح المغیث" میں ذکر کیا ہے، لیکن جمہورمحدثین رحمہم اللہ کا مذہب یہ ہے کہ  ایسی صورت میں  یہ قول مرفوع شمارہو گا، اس قول کو قاضی ابویعلی محمد بن حسین المعروف بابن الفراء (المتوفى : 458ھ) نے "العدة فی اصول الفقہ" میں، ملا علی قاری (متوفی:1014ھ) نے "شرح نخبۃ الفکر" میں، علامہ مناوی (متوفی:1031ھ) نے "الیواقیت والدرر"میں اور علامہ بزدوی حنفی نے" کشف الاسرار" میں ذکر کیا ہے، نیز علامہ بزدوی نے اس کو جمہور حنفیہ، شافعیہ اور جمہور محدثین کا مذہب قرار دیا ہےاور معاصرعالم عبد الكريم بن علی بن محمد "المہذب فی علم اصول الفقہ المقارن"نے اس قول کو ترجیح دیتے ہوئے دو دلیلیں ذکر کی ہیں:

اول: "مِن السُّنَّة كذا" یا اس طرح کے دوسرے صیغے جب بولے جاتے ہیں تو اس سے شریعت کی طرف سے صادر شدہ حکم اور طریقہ مراد ہوتا ہے اوراصولی اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر ہی شرعی حکم کا اطلاق کیا جاتا ہے۔

دوم: احکامِ شرع میں جب سنت کا لفظ مطلق بولا جائے تو اس سےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مراد ہوتی ہے، اگر کسی اور کی سنت مراد ہو تو اس میں عام طور پر صاحبِ سنت کی طرف نسبت کی تصریح ہوتی ہے، جیسے سنتِ عمر اور سنتِ عثمان رضی اللہ عنہما وغیرہ۔

1۔شرح ألفية العراقي (ص: 101) عبد الرحمن بن أبي بكر المعروف بابن العيني الحنفي (المتوفى: 893هـ) مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية، اليمن:

(قلت: من السنة عنه) أي: قول التابعي من السنة كذا (نقلوا تصحيح وقفه)، فقال النووي: الأصح أنه موقوف.

 

 (وذو احتمال نحو: أمرنا منه) أي: في قول التابعي: أمرنا بكذا أو نحوه احتمالان للغزالي هل يكون موقوفا أو مرفوعا مرسلا؟ ولم يرجح واحدا۔

2۔النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي (1/436) أبو عبد الله بدر الدين محمد بن عبد الله الزركشي (المتوفى: 794ھ) الناشر: أضواء السلف – الرياض:

 (قوله) وإذا قال الراوي عن التابعي يرفعه أو يبلغ به مرفوع۔ هكذا جزم به وينبغي أن يطرقه خلاف من قول التابعي من السنة كذا وقد سبق فيه قولان أو وجهان لكن الصحيح أنه موقوف۔

3۔المقنع في علوم الحديث (1/ 126) ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) دار فواز للنشر،السعودية :

وحكى القاضي أبو الطيب وجهين لأصحابنا فيما إذا قال التابعي من السنة كذا أصحهما وأشهرهما أنه موقوف على بعض الصحابة وثانيهما أنه مرفوع مرسل۔

4۔فتح المغيث بشرح ألفية الحديث (1/ 159) شمس الدين محمد بن عبد الرحمن السخاوي (المتوفى: 902هـ) الناشر: مكتبة السنة – مصر:

(قلت) : و(من السنة) كذا (عنه) أي: عن التابعي ; كقول عبيد الله بن عبد الله بن عتبة التابعي: «السنة تكبير الإمام يوم الفطر ويوم الأضحى، حين يجلس على المنبر قبل الخطبة تسع تكبيرات» (نقلوا تصحيح وقفه) على الصحابي من الوجهين اللذين حكاهما النووي في شروحه لمسلم، والمهذب، والوسيط لأصحاب الشافعي، أهو موقوف متصل أو مرفوع مرسل؟ وهو ممن صحح أيضا أولهما.

5۔شرح نخبة الفكر للقاري (ص: 562) علي بن محمد  الهروي القاري (المتوفى: 1014هـ) الناشر: دار الأرقم - لبنان / بيروت:

(وإذا قالها) أي الجملة المذكورة الشاملة للسنة، وهو قوله: من السنة كذا، أو السنة المطلقة، (غير الصحابي) أي التابعي، (فكذلك) أي مرفوع حكما بالاتفاق۔

6۔اليواقيت والدرر شرح شرح نخبة الفكر (2/ 191) زين الدين محمد المدعو بعبد الرؤوف المناوي (المتوفى: 1031هـ) الناشر: مكتبة الرشد - الرياض:

ومن الصيغ المحتملة قول الصحابي أو التابعي: من السنة كذا، فالأكثر على أن ذلك مرفوع.

7۔العدة في أصول الفقه (3/993) القاضي أبو يعلى، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ):

وهذا يقتضي أن قول التابعي: من السنة، أنها سنة النبي صلى الله عليه [وسلم] ؛ لأنه قدم قول زيد على قول علي؛ لأنه وافق قول سعيد: إنما هي السنة، وبين أنه ليس بقياس.

 

8۔كشف الأسرار شرح أصول البزدوي (2/ 308) عبد العزيز بن أحمد البخاري الحنفي (المتوفى: 730هـ) دار الكتاب الإسلامي، بيروت:

والحاصل أن الراوي إذا قال من السنة كذا فعند عامة أصحابنا المتقدمين، وأصحاب الشافعي وجمهور أصحاب الحديث يحمل على سنة الرسول - عليه السلام۔

9۔المهذب في علم أصول الفقه المقارن (2/ 758) عبد الكريم بن علي بن محمد النملة دار النشر: مكتبة الرشد – الرياض:

تنبيه: ولا فرق عندنا بين قول الصحابي وقول التابعي: " أمرنا ونهينا "، فالآمر والناهي هو الرسول - صلى الله عليه وسلم-۔

خامساً: قول الصحابي: " من السنّة كذا "، أو " السنّة جارية بكذا "، أو " مضت السنّة بكذا "، ما حكمه؟ لقد اختلف في ذلك على مذهبين:

المذهب الأول: أنه لا يفهم من ذلك إلا سنّة النبي - صلى الله عليه وسلم -، فيحمل عليه دون غيره. هذا ما ذهب إليه كثير من العلماء. وهو الحق عندي، لدليلين هما:

الدليل الأول: أن غرض الصحابي ومراده من روايته لذلك أن يعلمنا الشرع، فيجب حمل قوله: " من السُّنَّة كذا " - وغيرها من الصيغ الأخرى مما في معناها - على أنه صادر منِ الشارع، وهو سُنَّة النبي - صلى الله عليه وسلم.

الدليل الثاني: أن كلمة "؛ السنَّة" إذا أطقت في أحكام الشرع،فإن المقصود بها ما سَنَّه رسول

اللَّه - صلى الله عليه وسلم -، فإذا أطلق وجب رجوع ذلك إليه، لأنه إذا أريد بها سُنَّة غيره فإن لا تطلق، بل تضاف إلى صاحبها، يؤيد ذلك: ما انتشر على ألسنة جميع العلماء، وهو قولهم: " عليكم بالقرآن والسُّنَّة "، فلا يعقل من ذلك إلا اتباع النبي - صلى الله عليه وسلم - دون غيره.

  تیسری صورت: تابعی  کا"کنا نفعل کذاأو کنانعمل بکذا" کہنا:

اگر تابعی لفظ ِسنت، اور امرونہی کا لفظ بھی استعمال نہ کرے، نیز اپنےقول کی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف نسبت بھی نہ کرے، بلکہ ماضی استمراری کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے  یوں کہے کنا نفعل کذا، أو کنانعمل بکذا‘‘ یعنی ہم ایسا کیا کرتے تھے، ایسی صورت میں محدثینِ کرام رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ ایسا قول مرفوع شمار نہیں ہو گا، پھر اس میں تفصیل ہے کہ اگر تابعی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے کی طرف نسبت کرکے بیان کرے تو یہ قول موقوف شمار ہو گا اور اگر اس کی نسبت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے کی طرف نہ ہو تو بہر صورت یہ قول  مقطوع سمجھا جائے گا،  دیکھیے عبارات:

1۔الوسيط في علوم ومصطلح الحديث (ص: 207) محمد بن محمد أبو شُهبة (المتوفى: 1403ھ) الناشر: دار الفكر العربي:

وأما قول التابعي: كنا نفعل كذا فليس بمرفوع قطعا، ثم إن لم يضفه إلى زمن الصحابة فمقطوع وإن أضاف ففي احتمالان: الوقف وعدمه وجه الأول: أن الظاهر إطلاعهم على ذلك وتقريرهم عليه ووجه الثاني: أن تقرير الصحابي قد لا ينسب إليه بخلاف تقرير النبي -صلى الله عليه وسلم.

2۔الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح (1/ 145) إبراهيم بن موسى بن أيوب، برهان الدين أبو إسحاق الأبناسي (المتوفى: 802هـ) الناشر: مكتبة الرشد:

ولم يذكر حكم التابعي إذا قال: ذلك إلا في الرابعة فقول التابعي كنا نفعل ليس بمرفوع قطعا ثم إنه لم يضفه إلى زمن الصحابة فليس بموقوف أيضا بل هو مقطوع وإن أضافه إلى زمنهم فيحتمل أن يقال إنه موقوف۔

3۔تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي (1/ 207) عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) الناشر: دار طيبة:

ومن المرفوع أيضا اتفاقا، الأحاديث التي فيها ذكر صفة النبي - صلى الله عليه وسلم - ونحو ذلك. أما قول التابعي ما تقدم (كنا نفعل كذا)، فليس بمرفوع قطعا، ثم إن لم يضفه إلى زمن الصحابة، فمقطوع لا موقوف، وإن أضافه فاحتمالان للعراقي ولو قال: كانوا يفعلون، فقال المصنف في شرح مسلم: لا يدل على فعل جميع الأمة، بل البعض فلا حجة فيه إلا أن يصرح بنقله، عن أهل الإجماع فيكون نقلا له، وفي ثبوته بخبر الواحد خلاف۔

4۔الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح (1/ 145) إبراهيم بن موسى  الشافعي (المتوفى: 802هـ) مكتبة الرشد:

ذكر المصنف فيما يتعلق بالصحابي أربع مسائل الأولى كنا نفعل كذا أو: كانوا يفعلون كذا. والثانية: أمرنا بكذا ونحوه. الثالثة: من السنة كذا. والرابعة: يرفعه ويبلغ به ونحوهما.

ولم يذكر حكم التابعي إذا قال: ذلك إلا في الرابعة فقول التابعي كنا نفعل ليس بمرفوع قطعا ثم إنه لم يضفه إلى زمن الصحابة فليس بموقوف أيضا بل هو مقطوع وإن أضافه إلى زمنهم فيحتمل أن يقال إنه موقوف۔

   چوتھی صورت: بغیر کسی نسبت کی تصریح کے تابعی  کےقول کا حکم :

اگر تابعی   حضور اکرم ﷺ یا آپ ﷺ کے زمانہ کی طرف بالکل نسبت نہ کرے  اور کسی صحابی  کا نام بھی ذکر نہ کرے تو  اس کی دو صورتیں ہیں:

اول: وہ قول مدرک  بالقیاس ہو، یعنی اس میں اجتہا د اور رائے کا دخل ہوسکتا ہو تو ایسی صورت میں بالاتفاق تابعی کا قول بحکمِ مرفوع نہیں ہو گا، کیونکہ  فقہائے کرام اور محدثین کرام رحمہم اللہ  کی تصریح  کے مطابق صحابی کا  مدرک بالقیاس قول  بحکمِ مرفوع نہیں تو   ایسی صورت میں تابعی کا قول بدرجہ اولی ٰ بحکمِ مرفوع نہیں ہو گا۔

دوم: وہ حکم  غیر مدرک بالقیاس ہو یعنی اس میں قیاس اور اجتہاد  کو دخل نہ ہو  توایسی صورت  کے  بارے میں حنفیہ کی اصولِ حدیث پر لکھی گئی کتب  جیسے شرح الفیۃ العراقی لابن العینی(893ھ)قفو الاثر فی صفوة علوم الأثرلمحمد بن ابراہيم الحنفی رضی الدين المعروف بابن الحنبلی (المتوفى: 971ھ) اور ظفر الامانی  لشرح السید الشریف الجرجانی  لعبد الحي اللكھنوی(المتوفی:1304ھ) اور اصولِ فقہ پر لکھی کتب جیسے اصول السرخسی(المتوفی:483ھ)، تقویم الأدلہ للدبوسی ، اصول بزدوی، التحریر  فی اصول الفقہ لابن الہمام اور التقریر والتحبیر لابن الامیر الحاج وغیرہ  میں بندہ كو  یہ قول کہیں  نہیں ملا۔

بلکہ محدثینِ کرام کی  مصطلحاتِ حدیث  پر لکھی گئی  کتب میں بغیر کسی تفصیل کے  ایسی صورت  میں تابعی کے قول کےبحكم ِمرفوع  ہونے کی نفی کی گئی ہے۔

البتہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ابن  جماعہ کنانی کے حوالے سے تدریب الراوی میں معضل کی بحث کے تحت امام شعبی کے  فرمان «يقال للرجل يوم القيامة: عملت كذا وكذا فيقول: ما عملته، فيختم على فيه» کے  تحت نقل کیا ہے کہ یہ  بات چونکہ   اپنی رائے کی بنیاد پر نہیں کہی جا سکتی، اس لیے یہ بحکم مرفوع ہے اور یہ بات ان کی کتاب"المنہل الروی فی مختصر علوم الحدیث" سے نقل کی گئی ہے، جبکہ ابنِ جماعہ  کنانی کی  کتاب  "المنہل الروی" میں یہ عبارت نہیں  ملی، اسی لیے شیخ محمد عوامہ صاحب دامت برکاتہم نے  تدریب الراوی پر تعلیقات   میں اس مقام پر  تنبیہ فرمائی ہے کہ "  المنہل الروی"  کے مطبوعہ نسخے کے مطابق اس کی تصحیح کرنا چاہیے، دیکھیے عبارات:  

تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي (1/ 244) دار طيبة، بيروت:

(وإذا روى تابع التابعي، عن تابعي حديثا، وقفه عليه، وهو عند ذلك التابعي مرفوع متصل فهو معضل) ، نقله ابن الصلاح، عن الحاكم.

ومثله بما روي، عن الأعمش، عن الشعبي قال: «يقال للرجل يوم القيامة: عملت كذا وكذافيقول: ما عملته، فيختم على فيه»، الحديث.۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال ابن جماعة: وفيه نظر، أي لأن مثل ذلك لا يقال من قبيل الرأي، فحكمه حكم المرسل، وذلك ظاهر لا شك فيه. ثم رأيت، عن شيخ الإسلام أن لِمَا ذكَره ابن الصلاح شرطين: أحدهما أن يكون مما يجوز نسبته إلى غير النبي - صلى الله عليه وسلم - فإن لم يكن، فمرسل، الثاني أن يروى مسندا من طريق ذلك الذي وقف عليه، فإن لم يكن، فموقوف لا معضل; لاحتمال أنه قاله من عنده۔

المنهل الروي في مختصر علوم الحديث النبوي لابن جماعة الكناني الشافعي (المتوفي:733ھ) (ص: 47) دار الفكر – دمشق:

فرع إذا وقف تابع التابعي على التابعي حديثا هو مرفوع متصل عند ذلك التابعي فقد جعله الحاكم نوعا من المعضل وفيه نظر إلا أن يكون نحو قول الأعمش عن الشعبي يقال

للرجل يوم القيامة عملت كذا وكذا الحديث فقد رواه الشعبي عن أنس لأن التابع أسقط اسمي الصحابي والرسول صلى الله عليه وسلم۔

حاشية تدريب الراوي  في شرح تقريب النواوي للشيخ محمد عوامة (198) داليسر، بيروت:

قول السیوطی: قال ابن جماعة: وفيه نظر، أي لأن مثل ذلك لا يقال من قبيل الرأي، فحكمه حكم المرسل(۳)

(۳) قال محمد عوامة: المنهل الروي ص:۴۷ وينبغي أن يصحح ما في مطبوعته مما هنا، لا كما جاء في التعليق عليه۔

البتہ علامہ سخاوی نے فتح المغیث میں غیر مدرک بالقیاس مسائل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کو بحکم مرفوع قرار دینے کے بعد علامہ ابن العربی مالکی (المتوفی:543ھ) کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس حکم میں صحابی کے ساتھ تابعی کو بھی لاحق کیا ہے اور لکھا ہے کہ تابعی کا قول بھی غیر مدرک بالقیاس میں بحکم مرفوع ہو گا اورانہوں نے اس کو امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب قرار دیا ہے، لیکن حنفیہ کی  اصول فقہ اور مصطلحات حدیث وغیرہ پر لکھی کتب میں حنفیہ کے مذہب کے حوالے سے غیرمدرک بالقیاس مسائل میں تابعی کے قول کے بحکم مرفوع ہونے کی تصریح  کہیں نہیں ملی۔

فتح المغيث بشرح ألفية الحديث (1/ 166) مكتبة السنة، مصر:

[الفرع السادس ما أتى عن الصحابي موقوفا عليه لكنه مما لا مجال للاجتهاد فيه]۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إذ علم هذا، فقد ألحق ابن العربي بالصحابة في ذلك ما يجيء عن التابعين أيضا، مما لا مجال للاجتهاد فيه ; فنص على أنه يكون في حكم المرفوع، وادعى أنه مذهب مالك، قال: ولهذا أدخل عن سعيد بن المسيب: «صلاة الملائكة خلف المصلي» انتهى. وقد يكون ابن المسيب اختص بذلك عن التابعين، كما اختص دونهم بالحكم في قوله: "من السنة وأمرنا"، والاحتجاج بمراسيله كما تقرر في أماكنه، ولكن الظاهر أن مذهب مالك هنا التعميم، وبهذا الحكم أجيب من اعترض في إدخال المقطوع والموقوف في علوم الحديث، كما أشرت إليه في المقطوع.

پانچويں صورت: تفسیر میں تابعی کے قول کی حیثیت:

اگر تابعی قرآن کی کسی آیت کی تفسیر  کے بارے میں کوئی بات ذکر کرے تو   کیا اس کو مرفوع سمجھا جائے گا یا نہیں؟ اس میں بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ  تفسیر میں تابعی کا قول  تین شرطوں کے ساتھ بحکمِ مرفوع  اورتفسیر بالماثور کی قبیل سے شمار ہو گا:

 اول : اس تفسیر کا تعلق اسبابِ نزول سے ہو یا اس چیز سےہو جو غیر مدرک بالقیاس  ہو ۔

 دوسرا: وہ شخص اسرائیلی روایات بیان نہ کرتا ہو۔

تیسرا : وہ مشہور ائمہ میں سے ہو، جیسے امام مجاہد اور قتادہ رحمہم اللہ وغیرہ یا یہ کہ اس کے قول کی کسی مرسل روایت سے تائید ہوتی ہو، یعنی مراسیل میں سے  اس کا  کوئی تابع یا شاہد موجود ہو۔

 جبکہ  اکثر مفسرین کرام رحمہم اللہ نے  تابعی کے قول کے بحكمِ مرفوع ہونے سے متعلق  بحث نہیں کی،بلکہ  تفسیر میں اقوالِ تابعین  کے معتبر ہونے اور ان کی حجیت کے بارے میں بحث کی ہے،  پھر اس میں بھی  ائمہ کرام رحمہم اللہ  کا  اختلاف ہے، بعض کے نزدیک تابعین کے اقوال حجت نہیں، جبکہ  اكثرکے ہاں اقوالِ تابعین تفسیر میں حجت ہیں، بعض مفسرین کرام رحمہم اللہ  نے  امام شعبہ رحمہ اللہ کے قول کو ترجیح دی  اور اس کو صحیح قرار دیا ہے، ان کا فرمان یہ ہے کہ تابعی کا قول جب فروعی مسائل میں حجت نہیں تو تفسیر میں کیسے حجت ہو گا؟ اس قول کو امام ابن تیمیہ نے صحیح قرار دیا  اور  پھر انہوں نے  امام شعبہ کے قول کی تفصیل یہ  بیان فرمائی ہے کہ اگر تابعی سے مروی قول  پر سب تابعین کا اتفاق ہو تو وہ حجت  ہو گا اور اگر اس  قول میں  اختلاف ہو ، یعنی بعض  تابعین اس کے خلاف   کوئی بات فرماتے ہوں تو پھر تابعی کا قول حجت نہیں، بلکہ ایسی صورت میں  قرآن کریم، سنت رسول ، اقوالِ صحابہ اور لغتِ عرب  میں غور کرنے کے بعد  آیت کی تفسیر کی جائے گی۔

 امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ کے قول اور امام ابنِ تیمیہ کی تفصیل کو  امام ابن کثیر، امام ثعلبی، امام زرکشی،  اور دیگر  بہت سے مفسرین حضرات نے بھی نقل کیا ہے اور اس  پر رد نہیں کیا،   چنانچہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم نے بھی ’’علوم القرآن‘‘ میں  علامہ ابن کثیر کے حوالے سے  اختلاف کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اسی بات کو ذکر کیا ہے:

’’چوتھا ماخذ:  تابعین کے اقوال: تابعین سے مراد وہ حضرات ہیں جنہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے علم لیا،  اس مسئلے میں علمائے کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے کہ آیا تفسیر میں  تابعین کے اقوال حجت ہیں یا نہیں؟ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں  بہترین محاکمہ کیا ہے، ان کے ارشاد کا خلاصہ یہ ہے کہ  اگر تابعی کسی صحابی سے  کوئی تفسیر نقل کر رہا ہو تو ا سکا حکم وہی ہے جو صحابہ کرام  کی تفسیر کا ہے اور اگر خود اپنا قول  بیان  کرے  تو دیکھاجائے گا کہ کسی دوسرے تابعی کا قول اس کے خلاف ہے یا نہیں؟ اگر کوئی قول اس کے خلاف ہو تو اس وقت تابعی کا قول حجت نہیں۔ بلکہ اس آیت کی تفسیر کے لیےقرآن کریم ، احادیثِ نبویہ ،  آثارِ صحابہ، لغتِ عرب  اور دوسر ےشرعی دلائل پر غور کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے گا اور اگر تابعین کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہو تو اس صورت میں ان کی تفسیر بلاشبہ حجت اور واجب الاتباع ہو گی۔‘‘          (علوم القرآن:ص:340)

یہ بھی واضح رہے کہ مفسرین کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر تابعی کے غیر مدرک بالقیاس قول کی تائید میں مرسل روایت موجود نہ ہو  تو ایسی صورت میں بعض حضرات کے ہاں تابعی کے قول کو بحکمِ مرفوع اس وقت شمار کیا جائے گا جب اس کے مخالف کسی اور تابعی کا قول  موجود نہ ہو ، کیونکہ اس صورت میں  تابعی کے قول میں شک پیدا ہو جائے گا اور تابعی کے قول کی حجیت کے لیے مفسرینِ کرام نے عدمِ ریب کی شرط لگائی ہے، جیسا کہ علامہ ماتریدی (متوفی: 333ھ)نے تصریح کی ہے تو جب اس کی حجیت کے لیے یہ شرط ہے تو بحکمِ مرفوع ہونے کے لیے بدرجہ اولی یہ شرط ہو گی۔

تفسير الماتريدي (1/ 261) محمد بن محمد بن محمود، أبو منصور الماتريدي (المتوفى: 333ھ) الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت:

المصدر الرابع: قول التابعي:

اختلف العلماء في تفسير التابعي: فذهب بعض العلماء إلى أنه من المأثور؛ لأنه تلقاه من الصحابة غالبًا.

ومنهم من قال: إنه من التفسير بالرأي، أي: له حكم بقية المفسرين الذين فسروا حسب قواعد اللغة العربية دون التزام بالمأثور. والخلاصة في هذا الخلاف: أنه إن ثبت عن التابعين فيه -أي التفسير- شيء: فإن أجمعوا عليه أخذوا به؛ لأجل الإجماع: انطلاقًا في ذلك من عين المسلمتين اللتين ذكرناهما بالنسبة لإجماع الصحابة بل قل ذلك بالنسبة لكل إجماع أيضًا. فإن لم يكن إجماع فإنه ينظر: فإن توفر في قول أحدهم شرطان:

أحدهما: أن يكون له حكم المرفوع المرسل بأن كان فيما ليس للرأي فيه مجال، ولم يكن قائله كذلك معروفًا بالأخذ عن الإسرائيليات.

 

وثانيهما: أن يكون إمامًا من أئمة التفسير الآخذين لتفسيرهم عن الصحابة: كمجاهد وعكرمة وسعيد بن جبير، أو يتأيد قوله بمرسل آخر مثلهم أو نحو ذلك.

نقول: إن توفر في قول التابعي هذان الشرطان يترجح عند القوم الأخذ به.

وقد ذهب أكثر المفسرين: إلى أنه يؤخذ بقول التابعي في التفسير؛ لأن التابعين تلقوا غالب تفسيراتهم عن الصحابة، فمجاهد مثلا يقول: عرضت المصحف على ابن عَبَّاسٍ ثلاث عرضات من فاتحته إلى خاتمته، أوقفه عند كل آية منه وأسأله عنها. وقتادة يقول: ما في القرآن آية إلا وقد

سمعت فيها شيئًا. ولذا حكى أكثر المفسرين أقوال التابعين في كتبهم ونقلوها عنهم مع اعتمادهم لها.

والذي تميل إليه النفس: هو أن قول التابعي في التفسير لا يجب الأخذ به إلا إذا كان مما لا مجال للرأي فيه، فإنه يؤخذ به حينئذ عند عدم الريبة، فإن ارتبنا فيه؛ بأن كان يأخذ من أهل الكتاب، فلنا أن نترك قوله ولا نعتمد عليه، أما إذا أجمع التابعون على رأي فإنه يجب علينا أن نأخذ به ولا نتعداه إلى غيره.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سابعها: ما كان له حكم المرفوع المرسل من مأثور التابعين، واعتضد مع ذلك بمرسل آخر أو نحوه من شاهد أو تابع، أو تحقق في قائله شرط الإمامة والأخذ لأغلب تفسيره عن الصحابة.

مقدمة في أصول التفسير (ص: 44) تقي الدين أحمد بن عبد الحليم ابن تيمية الحنبلي (المتوفى: 728هـ) الناشر: دار مكتبة الحياة، بيروت:

فصل [تفسير القرآن بأقوال التابعين]:

 إذا لم تجد التفسير في القرآن ولا في السنة، ولا وجدته عن الصحابة، فقد رجع كثير من الأئمة

 في ذلك إلى أقوال التابعين، كمجاهد بن جبر؛ فإنه كان آية في التفسير۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقال شعبة

بن الحجاج وغيره: أقوال التابعين في الفروع ليستحجة، فكيف تكون حجة في التفسير؟ يعني أنها لا تكون حجة على غيرهم ممن خالفهم، وهذا صحيح، أما إذا أجمعوا على الشيء فلا يرتاب في كونه حجة؛ فإن اختلفوا فلا يكون قول بعضهم حجة على بعض ولا على من بعدهم، ويرجع في ذلك إلى لغة القرآن، أو السنة، أو عموم لغة العرب، أو أقوال الصحابة في ذلك.

تفسير ابن كثير (1/ 10) أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774هـ) الناشر: دار طيبة للنشر والتوزيع:

وقال شعبة بن الحجاج وغيره: أقوال التابعين في الفروع ليست حجة؟ فكيف تكون حجة في التفسير؟ يعني: أنها لا تكون حجة على غيرهم ممن خالفهم، وهذا صحيح، أما إذا أجمعوا على الشيء

فلا يرتاب في كونه حجة، فإن اختلفوا فلا يكون بعضهم حجة على بعض، ولا على من بعدهم، ويرجع في ذلك إلى لغة القرآن أو السنة أو عموم لغة العرب، أو أقوال الصحابة في ذلك.

تفسير الثعلبي (1/ 81) أبو زيد عبد الرحمن بن محمد بن مخلوف الثعالبي (المتوفى: 875هـ) دار إحياء التراث العربي – بيروت:

تفسير التّابعيّ: إما أن يكون مأثورا عن النبيّ صلى الله عليه وسلم أو عن صحابته، أو لا، فإن كان مأثورا عن النبيّ، يأخذ حكم تفسيره صلى الله عليه وسلم، وكذلك إن كان مأثورا عن الصحابة. وإن لم يكن مأثورا عن النبيّ ولا عن الصحابة، فقد اختلف العلماء في الرّجوع إليه والأخذ بأقوال التابعين

فيه: فقد نقل عن أبي حنيفة أنّه قال:’’ما جاء عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فعلى الرّأس والعين، وما جاء عن الصّحابة تخيّرنا، وما جاء عن التّابعين فهم رجال، ونحن رجال.‘‘

«قال شعبة بن الحجّاج وغيره: أقوال التابعين ليست حجّة، فكيف تكون حجّة في التفسير!! يعني أنها لا تكون حجّة على غيرهم ممّن خالفهم، وهذا صحيح، أما إذا أجمعوا على الشيء فلا يرتاب في كونه حجّة، فإن اختلفوا، فلا يكون قول بعضهم حجّة على بعض، ولا على من بعدهم، ويرجع في ذلك إلى لغة القرآن، أو السنة، أو عموم لغة العرب، أو أقوال الصحابة في ذلك» .

البرهان في علوم القرآن (2/ 158) بدر الدين محمد بن عبد الله الزركشي (المتوفى: 794هـ) دار المعرفة، بيروت:

وفي الرجوع إلى قول التابعي روايتان عن أحمد واختار ابن عقيل المنع وحكوه عن شعبة لكن عمل المفسرين على خلافه وقد حكوا في كتبهم أقوالهم كالضحاك ابن مزاحم وسعيد بن جبير ومجاهد وقتادة وأبي العالية الرياحي والحسن البصري والربيع بن أنس ومقاتل بن سليمان وعطاء بن أبي سلمة الخراساني ومرة الهمداني وعلي بن أبي طلحة الوالبي ومحمد بن كعب القرظي وأبي بكر الأصم عبد الرحمن بن كيسان وإسماعيل بن عبد الرحمن السدي وعكرمة مولى ابن عباس وعطية العوفي وعطاء بن أبي رباح وعبد الله بن زيد بن أسلم۔

فهذه تفاسير القدماء المشهورين وغالب أقوالهم تلقوها من الصحابة ولعل اختلاف الرواية عن أحمد إنما هو فيما كان من أقوالهم وآرائهم۔

الإتقان في علوم القرآن (4/ 208) عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911ھ) الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب:

الثاني: الأخذ بقول الصحابي فإن تفسيره عندهم بمنزلة المرفوع إلى النبي كما قاله الحاكم في مستدركه وقال أبو الخطاب من الحنابلة يحتمل ألا يرجع إليه إذا قلنا إن قوله ليس بحجة والصواب الأول لأنه من باب الرواية لا الرأي۔

 

قلت: ما قاله الحاكم نازعه فيه ابن الصلاح وغيره من المتأخرين بأن ذلك مخصوص بما فيه سبب النزول أو نحوه مما لا مدخل للرأي فيه ثم رأيت الحاكم نفسه صرح به في علوم الحديث فقال: ومن الموقوفات تفسير الصحابة وأما من يقول إن تفسير الصحابة مسند فإنما يقول فيما فيه سبب النزول فقد خصص هنا وعمم في المستدرك فاعتمد الأول والله أعلم.ثم قال الزركشي: وفي الرجوع إلى قول التابعي روايتان عن أحمد واختار ابن عقيل المنع وحكوه عن شعبة لكن عمل المفسرين على خلافه۔

   اعلاء السنن کی عبارت کا جواب:

جہاں تک علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ  کا اعلاء السنن میں یہ بات ذکرکرنے کا تعلق ہے کہ حنفیہ کے نزدیک غیر مدرک بالقیاس میں تابعی کا قول بحکم مرفوع ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ کہ  علامہ عثمانی نے’’اعلاء السنن ‘‘ کے مقدمہ میں اس   بات کو ’’من السنۃ‘‘ کذا کی بحث کے تحت ذکر کیا ہے اور آگے ایک جگہ مقدمہ کی عبارت کا حوالہ بھی دیا ہے،  لہذا اگر ان کی عبارت کو اسی صورت (جس میں تابعی "من السنۃ کذا" وغیرہ کے الفاظ ذکرکرکے غیرمدرک بالقیاس مسئلہ ذکرکرے) پر محمول کیا جائے  تو پھرمطلب درست ہو سکتا ہے، کیونکہ اگر تابعی غیر مدرک بالقیاس قول کو ’’من السنۃ کذا یا أمرنا بکذا یا نھینا عن کذا ‘‘ وغیرہ کہہ کر ذکركر ے تو  اس صورت میں چونکہ جمہورحضرات ایسی صورت کو مرفوع مرسل پر محمول کرتے ہیں  اس لیے یہ بات قابلِ اشکال نہ ہو گی۔دیکھیے عبارت:

مقدمة اعلاء السنن/قواعد علوم الحديث:(ص:127)،مكتب المطبوعات الإسلامية:

التنبيه علي أن معنى قوله: من السنة كذا أو أن يقول كنا نفعل كذا من غير أن يضيفه إلى عهده ﷺ۔۔۔۔۔۔۔۔ ولو قال: مثل ذلك تابعي هذا حاله فهو أيضا مرفوع حكماولكنه مرسل لحذفه اسم الصحابي، دليله ما في تدريب الراوي۔

إعلاء السنن (ج:15ص:187) للشيخ ظفر احمد العثمانی:

عن وكيع عن سفيان الثوري عني أبي نجيح عن مجاهد { شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ} [البقرة: 282]قال من الأحرار قال: وكيع لايجيز سفيان شهادة عبد وهو قول وكيع وأخرج الطبراني في تفسيره من طريق هشيم عن داود بن أبي هند قال سألت مجاهدا عن الظهار عن الامة فقال ليس بشيئ قلت أليس يقول { وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ} [المجادلة: 3]أفلسن من النساء فقال {وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ} [البقرة: 282]أفتجوز شهادة العبيد "الدرر المنثور"

قوله عن وكيع الخ دلالته علي معني الباب ظاهرة، وقد مر في المقدمة أن قول التابعي فيما لا يدرك بالقياس مرفوع مرسل حكما، ولا يخفي أن تفسير الكتاب لا يجوز بالرأي فأقوال التابعين

محمولة عل السماع، لا سيما إذا وردت فيما لا يدرك بالرأي أصلا، قال ابن القيم في الاعلام: ومن تأمل في كتب الأئمة ومن بعدهم وجدها مشحونة بالاحتجاج بتفسير التابعي۔

مذكوره بالا عبارت قرآن کریم کی تفسیر سے متعلق ہے جو مشہور تابعی امام مجاہد رحمہ اللہ سے منقول ہے، اس ميں علامہ عثمانی رحمہ اللہ نے  ایک دلیل یہ ذکر فرمائی ہے کہ تفسیر میں تابعین کے اقوال فیما لا یدرک بالقیاس سماع پر محمول ہیں، اس کے بارے میں عرض یہ ہے کہ تفسیر میں اقوال تابعین  کی حجیت اور ان کے  بحکم مرفوع ہونے میں اختلاف ہےاور علی الاطلاق تابعی کا قول بحکمِ مرفوع ہونے کا قول تفسیر میں بھی کسی نے ذکر نہیں کیا، جیسا کہ پیچھے ذکر کیا جا چکا۔

نیزاگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی  یہ بات دلیل نہیں  بن سکتی، کیونکہ سوال  فروعی اور فقہی مسائل میں قولِ تابعی کے  بحکمِ مرفوع ہونے سے متعلق ہے،جبکہ تفسیر اور فروعی مسائل میں فرق ہے، وہ یہ کہ تفسیر کے بارے میں علامہ عثمانی سمیت مفسرین نے صراحت کی ہے کہ تفسیر بالرائے جائز نہیں، جبکہ فروعی اور فقہی مسائل میں اجتہاد اور اپنی رائے کا دخل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے سے جاری ہے، یہی وجہ ہے کہ صرف تفسیر میں تابعی کے قول کو بعض حضرات نے شرائط کے ساتھ بحکم مرفوع کہا ہے، جبکہ فروعی مسائل میں قولِ تابعی کے بحکمِ مرفوع ہونے کی تصریح کتبِ حدیث اور کتبِ فقہ میں بندہ کو کہیں نہیں ملی،  لہذا فروعی مسائل کو تفسیر پر قیاس کرکے ان میں بھی قولِ تابعی کے بحکم مرفوع  ہونے کا حکم لگانا محل ِ نظر معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم

نیز ایک  جگہ علامہ عثمانی  رحمہ اللہ نے   مسئلہ محاذات کے تحت  ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے قول کی حجیت کو ثابت کرتے ہوئے اس  اصول کو ذکر کیا ہے، حالانکہ کسی حنفی فقیہ نے اس مسئلہ کے تحت یہ اصول ذکر نہیں کیا ۔ بلکہ مس بالشہوۃ  کے مسئلہ میں حرمتِ مصاہرت کے ثبوت  کی  ایک منقطع روایت  حضرت ابرہیم نخعی رحمہ اللہ سے  خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ   نے نقل کی ہے، اس کے باوجود اس مسئلہ پر صحیح اور صریح مرفوع نص نہ ہونے کی وجہ سے امام سرخسی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کے حوالے سے  اس مسئلہ میں حرمتِ ضعیفہ کا قول نقل کیا  اور اس صورت میں حرمتِ  مصاہرت کے  ثبوت کا مسئلہ احتیاط پر مبنی قرار دیا،  لہذا اگر ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا  قول بحکم مرفوع ہوتا  تو  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس کو بطور ِدلیل ذکر فرماتے یا کم از کم امام سرخسی’’المبسوط‘‘ میں اس اصول کی صراحت فرماتے، حالانکہ امام سرخسی رحمہ اللہ  اور ان سے نقل کرنے والے علامہ کاسانی، علامہ ابن الہمام،  علامہ ابن نجیم اور علا مہ شامی رحمہم اللہ  وغیرہ سب نے  اس مسئلہ کو اسی طرح احتیاط پرمبنی نقل کیا  اور کسی نے بھی ابرہیم نخعی رحمہ اللہ کے قول کو بحکم مرفوع قراردےکر حرمتِ قطعیہ کا حکم نہیں  ذکر کیا، دیکھیے عبارات:

مصنف عبد الرزاق (6/ 278،رقم الحديث: 10832 ) المكتب الإسلامي  بيروت:

عن أبي حنيفة، عن حماد، عن إبراهيم قال: «إذا قبّل الرجل المرأة من شهوة، أو مسها، أو نظر إلى فرجها لم تحل لأبيه، ولا لابنه»

المبسوط للسرخسي (9/ 117) دار المعرفة – بيروت:

وأبو حنيفة - رحمه الله تعالى - يقول: كثير من الفقهاء لا يرون اللمس والتقبيل موجبا للحرمة، وليس في إثبات الحرمة نص ظاهر بل نوع احتياط أخذنا به من حيث إقامة السبب الداعي إلى الوطء مقام الوطء وبمثل هذا الاحتياط لا يسقط الإحصان الثابت بيقين بخلاف المزني بها، فإن في ثبوت حرمة المصاهرة بالوطء نصا، وهو قوله تعالى {ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء}[النساء: 22].[1]

فتح القدير للكمال ابن الهمام (5/ 336) دار الفكربيروت:

وأبو حنيفة إنما يعتبر الخلاف عند عدم النص على الحرمة بأن ثبتت بقياس أو احتياط كثبوتها بالنظر إلى الفرج والمس بشهوة، لأن ثبوتها لإقامة السبب مقام المسبب احتياطا فهي حرمة ضعيفة لا ينتفي بها الإحصان الثابت بيقين۔

البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 42) دار الكتاب الإسلامي:

(قوله: والثابت حرمتها بالمصاهرة) ليس على إطلاقه لما مر آنفا أنه يشترط في الحرمة المؤبدة عنده أن تكون ثابتة بالإجماع أو بالحديث المشهور قال في الفتح وأبو حنيفة إنما يعتبر الخلاف عند عدم النص على الحرمة بأن تثبت بقياس أو احتياط كثبوتها بالنظر إلى الفرج والمس بشهوة؛ لأن ثبوتها لإقامة المسبب مقام السبب احتياطا فهي حرمة ضعيفة لا ينتفي بها الإحصان الثابت بيقين بخلاف الحرمة الثابتة بزنا الأب، فإنها ثابتة بظاهر قوله تعالى {ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم} [النساء: 22]

 

 

قولِ تابعی اور مرسل روایت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی طرف صراحتاً یا اشارةً نسبت کیے بغیر غیر مدرک بالقیاس مسائل میں  تابعی کے قول کو بحکم مرفوع قرار دینے میں ایک اشکال یہ بھی وارد ہوتا ہے کہ تابعی کی مرسل روایت ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے نزدیک قبول نہیں، اورمرسل کے تحت یہ تفصیل بھی منقول نہیں کہ روایت میں بیان کیا گیا مسئلہ غیر مدرک بالقیاس ہو تو روایت مقبول ہو گی اور مدرک بالقیاس ہو تو روایت مقبول نہ ہو گی، جبکہ اس میں تابعی صراحتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے بات بیان کر رہا ہوتا ہے، اس کے باوجود ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ نے اس روایت کو منقطع قرار دے احکام کے باب میں اس کو حجت نہیں  قرار دیا، البتہ حنفیہ کے نزدیک پانچ شرائط کے ساتھ مرسل روایت حجت ہے، جیسا کہ علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے شرح علل الترمذی میں تفصیل ذکر کی ہے۔

    لہذا جب تابعی کی روایت میں صراحتاً نسبت الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہو تو وہ صحابی کا واسطہ چھوڑنے کی وجہ سے  حجت نہیں تو جب تابعی نسبت الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابی کا واسطہ صراحتاً یا دلالتاً بالکل ذکر نہ کرے تو اس صورت میں تابعی کا قول  بدرجہ اولی بحکم مرفوع نہیں ہونا چاہیے، اگرچہ وہ غیر مدرک بالقیاس ہو،  اسی لیے عصرِ حاضر کے محقق عالم عبدالکریم خضر نے یہی وجہ ذکركرکے قولِ تابعی کے بحکم مرفوع ہونے کی نفی کی ہے۔

أقوال التابعين وأفعالهم ليست حجة ولم يتعبدنا الله بها وعليه كل ما يقوله التابعي مما لا مجال للإجتهاد فيه يتوقف عن قبوله حتى يبين مصدره، لأن العلماء اختلفوا في حجية المرسل وهو صريح قول التابعي قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما بالك فيما لم يصرح به التابعي ممن سمعه، فالظاهر والله أعلم أن ما قاله التابعي مما لا مجال للإجتهاد فيه لا يعطى حكم المرفوع كقول الصحابي، لأن الصحابي يحتمل أنه سمعه من النبي صلى الله عليه وسلم، أما التابعي فلا يرد هذا الإحتمال والله أعلم ونسبة العلم إليه أسلم.

تابعی کے قول کا حجت ہونا:

پیچھے ذکرکی گئی بحث  تابعی کے قول کے بحکم ِ مرفوع ہونے سے متعلق تھی، جہاں تک حنفیہ کے نزدیک  تابعی کے قول کے حجت  ہونے کا تعلق ہے تو اس میں تفصیل ہے، وہ یہ کہ ایسے تابعین کرام جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں فتوی  دیتے تھے اور بعض جگہوں پر ان سے رائے کا اختلاف بھی کرتے تھے، جیسے علقمہ (المتوفی:62ھ)، مسروق بن الاجدع (المتوفی:63ھ)،قاضی شریح (المتوفی:78ھ)، سعید بن المسیب(المتوفی:94ھ)، اور حسن بصری (المتوفی:110ھ) ایسے تابعین کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے دو روایتیں ہیں:

 نوادر  کی روایت   یہ ہے کہ ایسے تابعین کے اقوال بعد والے حضرات کے لیے حجت ہیں،  اس روایت کو فخر الاسلام بزدوی،  صدر الشریعہ اور  علامہ ابن نجیم  رحمہم اللہ نے  بھی ذکر کیا ہے۔ دوسری روایت ظاہر الروایہ ہے، وہ یہ کہ تابعین کا قول  بہر صورت  اپنے بعد والوں کے لیے حجت نہیں،اس روایت کو  امام سرخسی، علامہ  ابن الہمام اور علامہ  ابن نجیم رحمہم اللہ نے راجح قراردیا ہے۔ دیکھیے عبارت:

شرح التلويح على التوضيح لسعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني (المتوفى: 793هـ) (2/ 35) مكتبة صبيح بمصر:

وأما التابعي فإن ظهر فتواه في زمن الصحابة فهو كالصحابي عند البعض؛ لأنهم بتسليمهم إياه دخل في جملتهم كشريح خالف عليا - رضي الله عنه - ورد شهادة الحسن له) وكان مذهب علي قبول شهادة الولد لوالده. (وابن عباس رجع إلى فتوى مسروق في النذر بذبح الولد) وكان مذهبه أن يجب عليه مائة من الإبل إذ هي الدية فرجع إلى فتوى مسروق، وهي أن يجب ذبح شاة والله أعلم.

خلاصة الأفكار شرح مختصر المنار (ص: 160) أبو الفداء زين الدين قاسم بن قُطْلُوْبَغَا الحنفي (المتوفى: 879هـ) دار ابن حزم:

(ويجوز تقليد التابعي الذي ظهرت فتواه زمن الصحابة) للعلم بأن رأيه في القوة كرأيهم، وهذا رواية ((النوادر)) (على الأصح)، وهو اختيار فخر الإسلام خلافاً لشمس الأئمة رحمه الله.

كشف الأسرار شرح أصول البزدوي (3/ 219) دار الكتاب الإسلامي:

فأما قول التابعي فليس بحجة؛ لأن احتمال اتصال قوله بالسماع يكون بواسطة وتلك الواسطة لا يمكن إثباتها بغير دليل وبدونها لا يثبت السماع بوجه فأما الصحابي فقد كان مصاحبا لمن نزل

عليه الوحي فكان الأصل في حقه السماع فلا يجعل قول منقطعا عن السماع إلا إذا ظهر دليل غيره وهو الرأي فلم يوجد فلا يثبت الانقطاع بالاحتمال إليه أشار القاضي الإمام في التقويم والدليل على الفرق أن الحديث في حق الصحابي قطعي بمنزلة المتواتر في حقنا لسماعه من الرسول - عليه السلام - وفي حق التابعي ومن دونه ظني لتخلل الواسطة۔

التقرير والتحبير علي تحرير الكمال بن الهمام (2/ 312) دار الكتب العلمية،بيروت:

(والظاهر) من المذهب (في) التابعي (المجتهد في عصرهم) أي الصحابة (كابن المسيب) والحسن والنخعي والشعبي (المنع) من تقليده (لفوت المناط المساوي) للمناط في وجوب التقليد للصحابي وهو بركة الصحبة ومشاهدة الأمور المثيرة للنصوص والمفيدة لإطلاقها حتى ذكروا عن أبي حنيفة أنه قال إذا اجتمعت الصحابة سلمنا لهم وإذا جاء التابعون زاحمناهم وفي رواية لا أقلدهم هم رجال اجتهدوا ونحن رجال نجتهد (وفي النوادر نعم كالصحابي) واختاره الشيخ حافظ الدين النسفي (والاستدلال) لذلك (بأنهم) أي الصحابة (لما سوغوا له) أي للتابعي الاجتهاد وزاحمهم في الفتوى (صار مثلهم) فيجوز تقليده كما في الصحابي (ممنوع الملازمة لأن التسويغ) لاجتهاده (لرتبة الاجتهاد) أي لحصولها له (لا يوجب ذلك المناط) لوجوب التقليد(فبرد شريح الحسن على علي) أي فالاستدلال لهذا بما ذكر المشايخ من أن عليا - رضي الله عنه - تحاكم إلى شريح فخالف عليا في رد شهادة الحسن له للقرابة (وهو) أي علي(يقبل الابن) أي كان من

 رأيه جواز شهادة الابن لأبيه (ومخالفة مسروق ابن عباس في إيجاب مائة من الإبل في النذر بذبح الولد إلى شاة)۔

تيسير التحرير (4/ 231) محمد أمين بن محمود البخاري المعروف بأمير بادشاه الحنفي (المتوفى: 972 هـ)دار الكتب العلمية – بيروت:

(وصرح بأن ظاهر المذهب عدم تقليد التابعي وإن روى خلافه) كما سبق بيانه قبيل فصل التعارض.

مختصر المؤمل في الرد إلى الأمر الأول (ص: 63) عبد الرحمن بن إسماعيل المقدسي المعروف بأبي شامة (المتوفى: 665هـ) مكتبة الصحوة الإسلامية، الكويت:

150 - وقال ابن المبارك سمعت أبا حنيفة يقول إذا جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم فعلى الرأس وإذا جاء عن أصحابه نختار من قولهم وإذا جاء عن التابعين زاحمناهم151 - وفي رواية قال آخذ بكتاب الله فإن لم أجد فبسنة رسول الله فإن لم أجد في كتاب الله وسنة رسول الله آخذ بقول أصحابه ثم آخذ بقول من شئت منهم وأدع قول من شئت منهم ولا أخرج عن قولهم إلى قول غيرهم۔

فأما إذا انتهى الأمر إلى إبراهيم والشعبي وابن سيرين والحسن وعطاء وسعيد بن المسيب وعد رجالا من التابعين فقوم اجتهدوا وأنا أجتهد كما اجتهدوا۔

اس کے علاوہ وہ تابعین جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں فتوی دینے میں معروف نہیں تھے اور نہ ہی وہ اس زمانے میں اہل علم میں سے شمار کیے جاتے تھے تو ان کے اقوال وافعال حنفیہ کے نزدیک بالاتفاق  استنباط کے لیے حجت نہیں، البتہ فقہائے حنفیہ کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ حنفیہ عام تابعین کےاقوال بھی اپنے مذہب کی تائید کے طور پر نقل کرتے ہیں، جيسا کہ امام محمد رحمہ اللہ نے ظاہر الروایہ میں اور امام شمس الائمہ سرخسی نے المبسوط میں تابعین کے بہت سے اقوال بطور تائید ذکر فرمائے ہیں،لیکن اگر کسی مسئلہ پر  کوئی اور دلیل موجود نہ ہو  تو ایسی صورت میں صرف  تابعی کا قول استدلال کے لیے حجت  تامہ نہیں سمجھا جاتا، جیسا کہ پیچھے ذکرکی گئی علامہ عینی کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔

أصول السرخسي (2/ 114) دار المعرفة – بيروت:

لا خلاف في أن قول التابعي لا يكون حجة على وجه يترك القياس بقوله فقد روينا عن أبي حنيفة أنه كان يقول ما جاءنا عن التابعين زاحمناهم۔

الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء (ص:144) أبو عمر يوسف بن عبد الله القرطبي (المتوفى: 463هـ) دار الكتب العلمية – بيروت:

                   

حدثنا عنه أبو عصمة قال سمعت أبا حنيفة يقول ما جاءنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قبلناه على الرأس والعينين وما جاءنا عن أصحابه رحمهم الله اخترنا منه ولم نخرج عن قولهم وما جاءنا عن التابعين فهم رجال ونحن رجال۔

 

 


[1] فائدہ: اس حوالے سے بندہ نے  حضرت مولانا عبدالحلیم چشتی صاحب  رحمہ اللہ سےسوال کیا تھا تو  حضرت چشتی صاحب  رحمہ اللہ نے فرمایا تھا  کہ اگر  علامہ عثمانی صاحب  رحمہ اللہ نے اس كا  کوئی حوالہ ذکر نہیں کیا تو اس عبارت  کا اعتبار نہیں، حضرت  شیخ عبد المالک صاحب مدظلہم  (بنگلہ دیش والے) سے بات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ  متقدمین حنفیہ  کاوہی مزاج ہے جس کو علامہ عینی رحمہ اللہ نے  ذکر کیا ہے کہ دلیل  کے بغیر  قولِ تابعی  حجت نہیں، علامہ عینی رحمہ اللہ نے یہ بات نماز میں سورہ فاتحہ سے قبل  تسمیہ بالجہر کے مسئلہ کے تحت ذکر فرمائی ہے اور یہ مسئلہ غير مدرك بالقياس مسائل سے تعلق رکھتا ہے، دیکھیے عبارت:

البناية شرح الهداية (2/ 203) أبو محمد محمود بن أحمد الدين العينى (المتوفى: 855هـ) دار الكتب العلمية، بيروت:

وأما أقوال التابعين في ذلك فليست بحجة مع أنها قد اختلفت، فروي عن غير واحد منهم الجهر، وروي عن غير واحد منهم تركه، والواجب في ذلك الرجوع إلى الدليل لا إلى الأقوال.

حوالہ جات
البناية شرح الهداية (2/ 203) أبو محمد محمود بن أحمد الدين العينى (المتوفى: 855هـ) دار الكتب العلمية، بيروت:
وأما أقوال التابعين في ذلك فليست بحجة مع أنها قد اختلفت، فروي عن غير واحد منهم الجهر، وروي عن غير واحد منهم تركه، والواجب في ذلك الرجوع إلى الدليل لا إلى الأقوال.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

14/جمادی الاولیٰ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد صاحب

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / شہبازعلی صاحب