021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مستاجر پر مطلقا ضمان کی شرط لگانا
74876اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

آج کل  شادی  بیاہ و دیگر   تقریبات کے لیے ڈیکوریشن کا سامان کرائے پر لیا جاتا ہے، دکاندار اس سامان کا باقاعدہ اچھا خاصا  کرایہ وصول کرتے ہیں، اور اگر کوئی چیز خراب ہو جائے، اس میں کوئی عیب آ جائے یا  ضائع وغیرہ ہو جائے تو  اس کی بھی مکمل قیمت وصول کرتے ہیں، اور اس صورت میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ نقصان   کرایہ پر لینے والے   کی غلطی سے ہو ا ہے یا بغیر کسی غفلت و کوتاہی کہ یہ نقصان  ہو گیا ہے، نیز  بوقت عقد یہ صراحت کر دی جاتی ہے کہ  کسی بھی طرح کی نقصان کی صورت میں مکمل ضمان کرایہ پر لینے والے سے وصول کیا جائیگا ،چاہے نقصا ن کی وجہ کوئی بھی ہو، نیز جہاں صراحت نہ کی جائے وہاں بھی  یہ شرط المعروف کا لمشروط کی رو سے  موجود ہی ہوتی ہے ، اور ہر حال میں مکمل ضمان وصول کیا جاتا ہے، شرعا اس طری کی  شرط لگانے کا کیا حکم ہے؟ اس شرط کی وجہ سے عقد درست رہے گا؟ اس شرط کی بناء پر ضمان وصول کرنا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کرایہ داری  کے معاملہ میں جو چیز کرایہ پر دی جاتی ہے،شرعا  وہ کرایہ پر دینے والے ہی کے ضمان اور رسک میں رہتی ہے، کیونکہ کرائے پر دی جانے والی چیز  اگر کرایہ پر دینے والے  کے ضمان میں نہ رہے تو اس صور ت میں  کرایہ پر دینے والے کا اس چیز سے نفع  کمانا لازم آئیگا جو اس کے ضما ن ہی  میں نہیں، اور کسی شخص کا  ایسی چیز سے نفع کمانا جو  اس کے ضمان میں نہ ہو بنص حدیث جائز نہیں ہے، چنانچہ کرایہ پر دینے والے کا  کرایہ دار پر  مطلقا ہر طرح کے ضمان کی شرط لگانا باطل اور غیر معتبر ہے، اور اس شرط کی وجہ  سے  کرایہ پر دینے والے کے  لیے  اس نقصان کا ضمان لینا جائز اور حلال نہ ہو گا جو کرایہ دار کی غفلت اور کوتاہی کے بغیر واقع ہوا ہو، اور نہ کرایہ  دار پر ایسے نقصان کا ضمان دینا شرعا ضروری ہو گا ، اور اگر کرایہ  پر دینے والے   نے ایسے  نقصان کا ضمان لے لیا ہے  تو اس پر واجب ہے کہ  یہ رقم کرایہ دار کو واپس لوٹائے اور  اگر کسی وجہ سے  کرایہ دار کو اس  رقم کی واپسی  ممکن نہ ہو   تو پھر اس رقم کو صدقہ کرنا ضروری ہے، البتہ کرایہ دار پر مطلقا ضمان کی شرط لگانے سے عقد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، اور عقد بدستور صحیح رہے گا۔نیز  کرایہ پر دی جانے  والی چیز اگر کرایہ دار کی غفلت ، کوتاہی اور لاپرواہی کی وجہ سے ضائع ہو جائے  ، یا اس میں کسی قسم کا کوئی  عیب پیدا ہو جائے تو  کرایہ پر دینے والے شخص کے لیے اس نقصان کاضمان لینا مطلقا جائز ہو گا ، چاہے عقد میں اس کی  شرط لگائی ہو یا نہ لگائی ہو ۔

حوالہ جات
الآثار ـ لأبى يوسف (ص: 112)
عن عتاب بن ابي اسيد رضى الله عنه ان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بعثه اميرا على مكة وقال اني ابعثك الى اهل الله فأنههم عن اربع خصال عن ربح مالم يضمن وبيع مالم يقبض وعن شرطين في بيع وسلف.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 696)
[ (المادة 601) لا يلزم الضمان إذا تلف المأجور في يد المستأجر]
(المادة 601) لا يلزم الضمان إذا تلف المأجور في يد المستأجر ما لم يكن بتقصيره أو تعديه أو مخالفته لمأذونيته.....ويفهم من ذكر عدم الضمان في هذه المادة مطلقا أنه إذا شرط في عقد الإجارة ضمان المأجور إذا تلف على هذا الوجه فلا يلزم ضمان ولا حكم للشرط المذكور؛ لأن اشتراط الضمان في الأمانات باطل انظر شرح المادة (82) (أشباه، هندية، أنقروي) .
[ (المادة 602) يلزم الضمان على المستأجر لو تلف المأجور بتعديه]
(المادة 602) يلزم الضمان على المستأجر لو تلف المأجور أو طرأ على قيمته نقصان بتعديه. مثلا لو ضرب المستأجر دابة الكراء فماتت منه أو ساقها بعنف وشدة هلكت لزمه ضمان قيمتها.
مجمع الضمانات (ص: 55)
واشتراط الضمان على المستعير باطل هذه في الكفالة من الهداية وقيل: إذا شرط الضمان على المستعير تصير مضمونة عندنا في رواية ذكره الزيلعي وجزم به في الجوهرة ولم يقل في رواية لكن نقل بعده فرع البزازية عن الينابيع ثم قال: أما الوديعة والعين المؤجرة فلا يضمنان بحال اهـ۔

سعد مجیب

دارلافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۲ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب