74923 | طلاق کے احکام | الفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان |
سوال
میں نے غصہ کی حالت میں اپنی بہن سے کہا کہ " میری بیگم فارغ ہے" اور ساتھ میں کہا جہاں چاہے نکاح کرے،اس دوران یہ تمام باتیں بیگم نے بھی سن لیں ، میرا ارادہ طلاق کا نہیں تھا، کیا یہ طلاق ہو گئی ؟اگر ہو گئی تو واپسی کی کیا صورت ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ نے طلاق کی نیت سے " میری بیگم فارغ ہے " کہا تھا تو اس سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے، اور اگر طلاق کی نیت سے نہیں کہا لیکن اس وقت طلاق کا تذکرہ چل رہا تھا( جیسا کہ سوال سے معلوم ہو رہا ہے)پھر بھی ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے، رجوع جائز نہیں، البتہ باہمی رضامندی سے تجدیدِ نکاح کرنا جائز ہوگا،دوبارہ مہر بھی ادا کرنا ہوگا ،اور نکاح کے بعد صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔
حوالہ جات
والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح ردا ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح ردا، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وردا ولا يصلح سبا وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول.
(اللباب في شرح الكتاب:3/44)
إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها.
(الفتاوی الھندیۃ:1/472)
محمد طلحہ شیخوپوری
دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی
17 جمادی الاولی /1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |