021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تیس سال کےلیے لیز شدہ زمین پر میراث کا حکم
74979میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان  کرام اس مسئلے کے بارے میں  کہ ایک سرکاری زمین جس کا کل رقبہ چار ایکڑ ہے جو کہ  جلات خان    نے  شناختی کارڈ نمبر 4250118880537پر  1982 میں 30 سال کےلیے  پولٹری فارم کےلیے لیز پر لی۔ پھر 1999میں  جلات خان کا انتقال ہو گیا ،جبکہ 2004 میں 30سال کی مدت لیز بھی ختم ہو گئی تھی۔

اس دوران زمین کا ٹیکس یعنی اخراجات وغیرہ  محمد الیاس  بن جلات خان اداکرتارہا،  2004 کے بعد  محمد الیاس خان بن جلات خان نے اپنے نام پر لیز کرنے کےلیے درخواست دی  لیکن گورنمنٹ  کی طرف سے لیز کرنا بند ہے، اب اگر حکومت کی طرف سے لیز کرنا شروع ہو جائے  اور ہم حکومت کے رولز کے مطابق  ایکڑ  کے حساب سے پیسے جمع کروادیں  اور زمین ہمارے نام پر  99 سال کےلیے لیز ہو جائے تو اس زمین  میں جلات خان کےدیگر ورثاء یعنی بھانجے وغیرہ  میراث کا دعوی تو نہیں کر سکتے ؟جبکہ یہ زمین موروثی نہیں ہے بلکہ سرکاری ہے ، ابھی تو صرف ہمارے پاس قبضہ ہے ، دوبارہ لیز پر نہیں ملا ہے۔ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تیس سالہ لیز پر زمین کو   حاصل کرنا   شرعی اعتبار سے  اجارہ اور کرایہ داری کا معاملہ ہے، اورکسی چیز  کو کرایہ پر لینے کی وجہ سے کرایہ پر لینے والا اس کا مالک نہیں بنتا، جبکہ میراث صرف مملوکہ مال میں جاری ہوتی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں  جلات خان کی لیز پر لی ہوئی زمین  میں میراث جاری نہیں ہو گی اور اگر اس زمین کو  لیز کی مدت ختم ہونے کے بعد   محمد الیاس  بن جلات خان حکومت سے  دوبارہ لیز پر حاصل کرتا ہے تو دیگر ورثاء  کو  اب ا س زمین  میں میراث کے دعوی کے حق نہ ہو گا۔

نوٹ : بیٹے  کے ہوتےہوئے بھانجے وارث بنتے ہی نہیں ہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 759)
(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن والعبد الجاني) والمأذون المديون والمبيع المحبوس بالثمن والدار المستأجرة وإنما قدمت على التكفين لتعلقها بالمال قبل صيرورته تركة (بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير) ككفن السنة أو قدر ما كان يلبسه في حياته ولو هلك كفنه فلو قبل تفسخه كفن مرة بعد أخرى وكله من كل ماله (ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد) ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه وإلا فسيان كما بسطه السيد، (وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي وإلا لا ثم) تقدم (وصيته) ولو مطلقة على الصحيح خلافا لما اختاره في الاختيار (من ثلث ما بقي) بعد تجهيزه وديونه وإنما قدمت في الآية اهتماما لكونها مظنة التفريط (ثم) رابعا بل خامسا (يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثته).

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۱ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب