021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ماں کے پاس پرورش کے دوران والد کا بیٹی کو اپنے پاس روکنے کا حکم
75859طلاق کے احکامبچوں کی پرورش کے مسائل

سوال

سوال نمبر2:  ممکن ہے میرے شوہر  اور اس کے والدین  مزید چند ماہ پاکستان میں ہی قیام کریں، میری بیٹی کی عمر اس وقت پانچ سال ہے اور چند بار وہ اپنے والد، دادا اور  دادی سے ملنے بھی جا چکی ہے، ایک دفعہ والدنے اسے رات کو بھی اپنے پاس روک لیا تھا، ممکن ہے وہ زیادہ دنوں تک کےلیے بھی اپنے پاس روکنے  کی خواہش رکھتے ہوں، شہر کے اندر اور شہر کے باہر بھی سیر و تفریح کی غرض سے آنا جانا چاہتے ہوں، مزید برآں مجھے اطلاع دیے بغیر  میری بیٹی کو  ملک سے باہر بھی لے جائیں۔

سوال نمبر3: دونوں صورتوں میں یعنی اگر میں اپنے شوہر کے نکاح میں ہوں یا نہیں ہوں، میرے شوہر کو میری مرضی اور مشوورے کے بغیر عارضی یا مستقل طور پر مجھے اطلاع دیے بغیر میری بیٹی کو ملک سے باہر لے جانے  کا کیا شرعا حق حاصل ہے؟اگر نہیں تو اس خدشے کی روک تھام کا شرعی طریقہ واضح فرمائیں۔

ان تمام صورتوں میں سے ہر صورت اور جزء کی الگ الگ وضاحت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب تک آپ بچی کے کسی  غیر محرم  سے شادی نہ کر لیں تب تک بچی کی  عمر نو سال ہونے تک اس کی پرورش کا حق  آپ کا ہے ، لہذا اس عرصے کے دوران  بچی کے باپ کےلیے آپ کی اجازت، مشورہ اور اطلاع کے بغیر  بچی کو اپنے گھر لے جانا،اپنے گھر ٹھہرانا،شہر کے اندر اور شہر کے باہر سیرو تفریح کی غرض سے لے جانا  یا پھر عارضی یا مستقل طور پر  ملک سے باہر لے جانا جائز نہیں ہے۔

اس خدشے کی روک تھام کے لیے آپ خاندان  کے بااثر  افراد سے بھی افہام و تفہیم کے ذریعے اس معاملہ کے حل کےلیے مدد لے سکتی ہیں اور ضرورت پڑنے پر عدالت سے بھی رجوع  کر سکتی ہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 570)
كما يمنع الأب من إخراجه من بلد أمه بلا رضاها ما بقيت حضانتها....(قوله: من إخراجه) أي إلى مكان بعيد، أو قريب يمكنها أن تبصره فيه ثم ترجع لأنها إذا كانت لها الحضانة يمنع من أخذه منها فضلا عن إخراجه، فما في النهر من تقييده بالعبد أخذا مما يأتي عن الحاوي غير صحيح فافهم. (قوله: من بلد أمه) الظاهر أن غيرها من الحاضنات كذلك ط. (قوله: ما بقيت حضانتها) كذا في النهر وفيه كلام.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 566)
(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى وبنت إحدى عشرة مشتهاة اتفاقا زيلعي. (وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۳ رجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب