021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت کی شرائط
75867مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلے کے بارے میں کہ :

فریق اول نے فریق ثانی کو  دس لاکھ روپے دیے ہیں کاروبار کرنے کے لیے ان شرائط کے ساتھ:

  1. یہ رقم صرف چھ مہینے کے لیے دی گئی ہے۔
  2. دونوں فریق میں سے کوئی بھی فریق اگر معاہدہ مقررہ وقت سے پہلے ختم کرنا چاہے تو ایک مہینے کا نوٹس  دینا ہو گا۔
  3. فریق ثانی ان پیسوں کو رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں لگائے گی اور جو بھی خریدار ی کرے گی وہ مکمل یا جزوی طور پر فریق اول کے نام پر ہو گی۔
  4. فریق ثانی اس مذکورہ جائیداد کو  چھ ماہ میں فروخت کرنے کی پابند ہے۔
  5. اگر فریق ثانی مذکورہ جائیداد کو  چھ ماہ سے پہلے فروخت کرنے پر  کامیاب ہو جاتی ہے تو  معاہدہ خو د بخود اگلے چھ ماہ  کے  لیے ہو جائیگا۔
  6. فریق ثانی اگر مذکورہ جائیداد کو  چھ ماہ میں فروخت نہ کر سکی تو اسے جائیداد خود رکھ کر ایک مہینے کے اندر فریق اول کے پیسے لوٹانے ہوں گے۔
  7. جائیداد فروخت ہونےکی صورت میں منافع کا تیس فیصد فریق ثانی کا ہو گا۔
  8. ہر قسم کے نقصان کا ذمہ دار فریق ثانی ہو گا۔
  9. کسی بھی قسم کے اختلاف کی صورت میں باہمی رضامندی سے ثالث مقرر کیا جائیگااوراسی کا فیصلہ حرف آخر ہو گا۔

نوٹ: اس معاہدے میں اگر کوئی خلاف شرع بات ہے تو اس کی نشاندہی کر دیں اور اگر اس کا متبادل ہوتو بتا کر مشکور فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایک جانب سے سرمایہ اور دوسری جانب سے کام  کی بنیاد پر کیا جانے والا معاملہ اور معاہدہ شرعا" مضاربت" کہلاتا ہےجو مخصوص شرائط کے ساتھ جائز ہے، لہذا صورت مسئولہ میں ذکر کی گئی معاہدہ کی شرائط کی  شرعی لحاظ سے تفصیل

درج ذیل ہے:

معاہدہ کی پہلی ، دوسری ، تیسری ساتویں اور نویں  شرط درست ہے کیونکہ مضاربت کے معاملے کو کسی خاص کاروبار اور خاص  وقت کے ساتھ  مقید کرنا  ، معاہدہ میں کوئی مناسب شرط لگانااور  جانبین کے نفع کی مقدار کوکاروبار سے  حاصل ہونے والے منافع کے فیصدی حصے سے طے کرنا جائز ہے ۔

البتہ معاہدہ کی چوتھی ، پانچویں ،چھٹی اور آٹھویں شرط درست نہیں  کیونکہ مضاربت میں ایسی مفید شرط  تو لگائی جا سکتی ہے جو کاروبارکرنے والے لیے تنگی کا باعث نہ ہو مگر ایسی کوئی شرط نہیں لگائی جا سکتی جو مضارب (کام کرنے والا)کے لیے تنگی کا ذریعہ ہو۔

لہذا فریق ثانی پر چھ ماہ کے اندر جائیداد فروخت کرنے کی شرط لگانا، چھ ماہ میں  جائیداد فروخت کرنے کی صورت میں اگلے چھ ماہ کےلیے معاہد ہ کے  خود بخود ہو جانے کی شرط لگانااور  جائیداد فروخت نہ ہونے کی صورت میں فریق ثانی پر  جائیداد خود رکھ کر فریق اول کو پیسوں کی ادائیگی کی شرط لگانا  درست نہیں، یہ تینوں شرائط غیرمعتبر، لغو اور باطل ہیں جن کا شرعا کوئی اعتبار نہیں البتہ ان شرائط کی وجہ سے مضاربت کے معاملہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور مضاربت کا معاملہ بدستور جائز اور درست رہے گا لہذا اس صورت میں(چاہے جائیداد فروخت ہو یانہ ہو) چھ ماہ کے بعد عقد مضاربت خود بخود ختم ہو جائیگا اور اگلے چھ ماہ کے لیے معاہدہ برقرار رکھنے کے لیے دوبارہ سے باقاعدہ  ایجاب (OFFER) و قبول (ACCEPTENCE) کرنا پڑے گا  البتہ چھ ماہ میں جائیداد فروخت نہ ہونے کی صورت میں   فریق ثانی کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ جائیداد کو بیچ کر نقد رقم حاصل کرے  اور نقد رقم کے حصول کے بعد اگر نفع ہوا ہو تو  اسے طے شدہ شرح  کے مطابق تقسیم کر دیا جائے۔

فریق ثانی کی کوتاہی، غفلت اورطے شدہ  معتبر شرائط  کی خلاف ورزی کیے بغیر ہر طرح کے نقصان کی ذمہ داری فریق ثانی پر ڈالنے  کی شرط بھی باطل اور غیر معتبر ہے، بلکہ اس طرح کے نقصان کی تلافی پہلے نفع سے  اور پھر فریق اول کی طرف سے دی جانے والی رقم سے کی جائیگی البتہ اس شرط  کی وجہ سے مضاربت کے معاملہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور مضاربت کا معاملہ بدستور جائز اور درست رہے گا ۔

فریق ثانی کی غفلت ، کوتاہی اور معتبر شرائط کی خلاف ورزی  کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا ذمہ دار فریق ثانی ہی ہو گا۔

حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص: 271)
المادة (1407) المضاربة المطلقة هي التي لم تتقيد بزمان أو مكان أو بنوع تجارة أو بتعيين بائع أو مشتر , وإذا تقيدت بأحد هذه فتكون مضاربة مقيدة. مثلا إذا قال: اعمل في الوقت الفلاني أو المكان الفلاني أو بع واشتر مالا من الجنس الفلاني أو عامل فلانا وفلانا أو أهالي البلدة الفلانية. تكون المضاربة مقيدة.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 272)
المادة (1411) يشترط في المضاربة أن يكون رأس المال معلوما كشركة العقد أيضا وتعيين حصة العاقدين من الربح جزءا شائعا كالنصف والثلث.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 275)
المادة (1423) إذا وقت رب المال المضاربة بوقت معين فبمضي ذلك الوقت تنفسخ المضاربة.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 274)
المادة (1420) يلزم المضارب في المضاربة المقيدة مراعاة قيد وشرط رب المال مهما كان.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 459)
(المادة 1428) - (يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما فلا يعتبر ذلك الشرط) . يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال إذا تجاوز الربح إذ يكون الضرر والخسار في هذا الحال جزءا هالكا من المال فلذلك لا يشترط على غير رب المال ولا يلزم به آخر. ويستفاد هذا الحكم من الفقرة الثانية من المادة الآنفة وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما أو جميعه على المضارب فلا يعتبر ذلك الشرط. انظر المادة (83) أي يكون الشرط المذكور لغوا فلا يفسد المضاربة (الدرر) ؛ لأن هذا الشرط زائد فلا يوجب الجهالة في الربح أو قطع الشركة فلا تفسد المضاربة به حيث إن الشروط الفاسدة لا تفسد المضاربة (مجمع الأنهر).
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 436)
 أن كل شرط يؤدي إلى جهالة في الربح يوجب فساد المضاربة، كإعطاء المضارب المال أراض معلومة ليزرعها سنة واحدة أو أن يعطيه داره للسكنى سنة واحدة؛ لأنه جعل بعض الربح عوضا عن عمل والبعض أجرة داره أو أرضه ولا يعلم حصة العمل حتى تجب حصته ويسقط ما أصاب منفعة الدار وكل شرط لا يؤدي إلى جهالة الربح فهو باطل والمضاربة صحيحة كشرط الضرر والخسار على المضارب أو كشرطه على المضارب وعلى رب المال (البحر ومجمع الأنهر) ؛ لأن الخسران هو عبارة عن تلف مال من رأس المال فشرط ذلك على رب المال غير صحيح، ولكن بما أن هذا الشرط لا يؤدي إلى قطع الشركة في الربح فلا تفسد المضاربة بالشرط الفاسد (الدرر).

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۶ رجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب