021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عقدِ شرکت میں نفع کی تقسیم
79147شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

حضرات مفتیانِ کرام! ایک مسئلہ کے بارے میں آپ حضرات سے رہنمائی مطلوب ہے۔ میں نے ایک کاروبار میں اپنے ڈھائی لاکھ روپے لگائے ہیں، اور اس کاروبار میں ساڑھے سات لاکھ دوسرے فریق کے ہیں، کل ملا کر دس لاکھ روپے کاروبار میں ہیں، جس میں سے میرے ڈھائی لاکھ ہیں۔ میری طرف سے اس کاروبار میں اس ڈھائی لاکھ کے علاوہ کوئی محنت نہیں ہے، البتہ دوسرا فریق کاروبار کے تمام اخراجات، انتظامات اور ہر قسم کی محنت برداشت کرتا ہے، سارا عمل دوسرے فریق ہی کی طرف سے ہے۔

1. برائے مہربانی مجھے یہ بتائیں کہ اس میں میرا شرعی اعتبار سے کتنے فیصد نفع ہونا چاہیے ؟

2. کیا یہ نفع ہر سال مجھے لینا چاہیے یا ہر ماہ؟

3. اس میں میرے نفع کی زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم فیصد شرعی اعتبار سے کیا ہونی چاہیے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرکت کے معاملے میں اگر سرمایہ دونوں فریق کی طرف  سے جبکہ عمل(محنت) ایک فریق کی طرف سے طےہو،تو اس صورت میں نفع سرمایہ  کے بقدربھی تقسیم کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح جو فریق  کام (محنت) بھی کر رہاٍ ہے اس کے لیے اس کےسرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع بھی مقرر کیا جاسکتا ہے۔

شرکاء نے باہم رضامندی سے نفع کی تقسیم کی جو مدت طے کی ہے ، اس کے مطابق نفع تقسیم کیا جائےگا۔ چاہے وہ کوئی بھی متعین مدت ہو۔

پوچھی گئی صورت میں چونکہ آپ کا سرمایہ پچیس فی صد ہے اور یہ بھی طے ہے کہ کام کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔تو زیادہ سے زیادہ آپ سرمایہ کے بقدر پچیس فی صد نفع کے حقدار ہیں۔اور کم سے کم آپ اور دوسرے شریک کے درمیان پچیس فی صد یا اس سے  کم جتنے نفع پہ بھی اتفاق ہو، آپ کے لئے لینا جائز ہے۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (11/ 287):
والشريكان في العمل إذا غاب أحدهما أو مرض أو لم يعمل وعمل الآخر فالربح بينهما على ما اشترطا لما روي أن رجلا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أنا أعمل في السوق ولي شريك يصلي في المسجد فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم "لعلك بركتك منه" والمعنى أن استحقاق الأجر بتقبل العمل دون مباشرته والتقبل كان منهما وإن باشر العمل أحدهما ألا ترى أن المضارب إذا استعان برب المال في بعض العمل كان الربح بينهما على الشرط أو لا ترى أن الشريكين في العمل يستويان في الربح وهما لا يستطيعان أن يعملا على وجه يكونان فيه سواء وربما يشترط لأحدهما زيادة ربح لحذاقته وإن كان الآخر أكثر عملا منه فكذلك يكون الربح بينهما على الشرط ما بقى العقد بينهما وإن كان المباشر للعمل أحدهما ويستوي إن امتنع الآخر من العمل بعذر أو بغير عذر لأن العقد لا يرتفع بمجرد امتناعه من العمل واستحقاق الربح بالشرط في العقد.
رد المحتار (4/312): ( قوله : ومع التفاضل في المال دون الربح ) أي بأن يكون لأحدهما ألف وللآخر ألفان مثلا واشترطا التساوي في الربح ، وقوله وعكسه : أي بأن يتساوى المالان ويتفاضلا في الربح ، لكن هذا مقيد بأن يشترط الأكثر للعامل منهما أو لأكثرها عملا ، أما لو شرطاه للقاعد أو لأقلهما عملا فلا يجوز كما في البحر عن الزيلعي والكمال . قلت :والظاهر أن هذا محمول على ما إذا كان العمل مشروطا على أحدهما. وفي النهر : اعلم أنهما إذا شرطا العمل عليهما إن تساويا مالا وتفاوتا ربحا جاز عند علمائنا الثلاثة خلافا لزفر، والربح بينهما على ما شرطا وإن عمل أحدهما فقط ؛ وإن شرطاه على أحدهما ، فإن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز ، ويكون مال الذي لا عمل له بضاعة عند العامل له ربحه وعليه وضيعته ، وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة ، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهماعلى قدررأس مالهماأبدا هذاحاصل مافي العناية………………………إلخ

محمد جمال ناصر

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

2/رجب المرجب/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

جمال ناصر بن سید احمد خان

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے