021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وارث کے حق میں وصیت کا حکم
80099میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

والدہ کی طبیعت بہت خراب ہے،انہوں نے وصیت کی ہے کہ ان کا حصہ ان کے مرنے کے بعد  سب سے چھوٹے بیٹے سبحان اور اس سے بڑے بیٹے فرقان کو دے دیا جائے،اس سلسلے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ وارث کے حق میں وصیت شرعا معتبر نہیں ہے،اس لئے آپ کی والدہ کا اپنے بیٹوں کے حق میں وصیت درست نہیں ہے،تاہم اگر یہ دونوں بیٹے بہ نسبت دیگر بیٹوں کے زیادہ ضرورت مند ہیں تو والدہ انہیں مرنے سے پہلے اپنے مال میں جتنا چاہے دے سکتی ہیں،بشرطیکہ ان کو باقاعدہ قبضہ کراکر دے،نیز وہ یہ ہبہ مرض الموت سے پہلے کرلیں،کیونکہ مرض الموت کی حالت میں کسی کو کچھ دینا وصیت کے حکم میں ہے اور ورثہ کے حق میں وصیت درست نہیں،لیکن سارا مال انہیں دو بیٹوں کو دے کر بقیہ ورثہ کو بالکل محروم رکھنا بھی درست نہیں۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (7/ 337):
"(ومنها) أن لا يكون وارث الموصي وقت موت الموصي، فإن كان لا تصح الوصية لما روي عن أبي قلابة - رضي الله عنه - عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «إن الله تبارك وتعالى أعطى كل ذي حق حقه، فلا وصية لوارث» ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

22/شوال1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے