021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سونے کی گزشتہ سالوں کی زکوة کا حکم
80103میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

اگر کئی سالوں کی زکوة ذمہ میں ہو تو اسے کس حساب سے دیا جائے گا،سابقہ مالیت کے لحاظ سے یا موجودہ قیمت کے لحاظ سے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بہتر یہ ہے کہ سابقہ سالوں کی زکوة بھی موجودہ قیمت فروخت کے حساب سے ادا کی جائے،لیکن اگر سونے کی قیمت بہت زیادہ بڑھنے کی وجہ سے موجودہ قیمت فروخت کے لحاظ سے ادائیگی مشکل ہو توگزشتہ سالوں کی قیمت فروخت کے لحاظ سے ادا کرنا بھی درست ہے۔"احسن الفتاوی "(4/ 278)

لہذا پہلےایک سال کی زکوٰۃ کا حساب لگایا جائے ،اس  کی ادائیگی کے بعد جو رقم بچے اگروہ نصاب تک پہنچے، تو دوسرے سال کی زکوٰۃ نکالی جائے، اسی طرح دوسرے سال کی زکوة منہا کرنے کے بعد اگر بقایا رقم نصاب تک پہنچے، تو تیسرے سال کی زکوة ادا کی جائے، جتنے سالوں کی زکوة ادا نہیں کیان کا حساب اس طریقہ پر کیا جائے گا۔

اگر ایک یا کئی سالوں کی زکوة منہا کرنے کے بعد بقیہ مال نصاب تک نہ پہنچے تو پھر اس کے بعد کے سالوں کی زکوة لازم نہیں ہوگی۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (2/ 285):
"(وجاز دفع القيمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء".
"فتح القدير " (2/ 219):
"ثم قول أبي حنيفة فيه: إنه تعتبر القيمة يوم الوجوب وعندهما يوم الأداء، والخلاف مبني على أن الواجب عندهما جزء من العين وله ولاية منعها إلى القيمة فتعتبر يوم المنع كما في منع الوديعة وولد المغصوب، وعنده الواجب أحدهما ابتداء، ولذا يجبر المصدق على قبولها فيستند إلى وقت ثبوت الخيار وهو وقت الوجوب. ولو كان النصاب مكيلا أو موزونا أو معدودا كان له أن يدفع ربع عشر عينه في الغلاء والرخص اتفاقا، فإن أحب إعطاء القيمة جرى الخلاف حينئذ، وكذا إذا استهلك ثم تغير لأن الواجب مثل في الذمة فصار كأن العين قائمة، ولو كان نقصان السعر لنقص في العين بأن ابتلت الحنطة اعتبر يوم الأداء اتفاقا لأنه هلاك بعض النصاب بعد الحول، أو كانت الزيادة لزيادتها اعتبر يوم الوجوب اتفاقا لأن الزيادة بعد الحول لا تضم".
"بدائع الصنائع " (2/ 7):
" إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

22/شوال1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے