021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تعلیق طلاق کے متفرق جملوں کا حکم
76820طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

گزارش کی جاتی ہے کہ شوہر  نے اپنی بیوی  کو فون کیا جو کہ اپنے والدین کے گھر پر تھی کہ اگر ایک گھنٹے کے اندر تم نہیں آئی میری طرف سے طلاق ہے،یہ جملہ دو مرتبہ دہرایا،اس کے بعد بیوی کی امی کو فون کیا کہ اگر یہ نہیں آئی ایک گھنٹے کے اندر تو میری طرف سے طلاق ہے،اس بار بھی دو مرتبہ یہ جملہ دہرایا۔

اس سے کافی عرصہ پہلے شوہر نے زوجہ کو رشتہ داروں کے ہاں جانے پر کہا کہ اگر تم وہاں گئی تو میری طرف سے آزاد ہو،جبکہ وہ وہاں گئی تھی۔

شوہر آئس کا نشہ کرتا ہے،ان کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ نشے کے دوران اور اس کے بعد وہ مدہوش رہتا ہے اور لوگوں کو پہچان نہیں پاتا،لیکن کبھی ان کو اتنا مدہوش نہیں پایا گیا کہ وہ بغیر کپڑوں کے ہوتا ہو،دوسال کا بیٹا بھی موجود ہے۔

مندرجہ بالا حقائق کو دیکھتے ہوئے فتوی دے دیا جائے کہ آیا طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟واضح رہے کہ لڑکا فون کرنے کے بعد لڑکی کے گھر آیا تھا،لیکن ٹائم یاد نہیں کہ گھنٹہ گزارا تھا یا نہیں؟

تنقیح:سائل نے بتایا کہ آزاد کا لفظ ان کے عرف میں صرف طلاق کے لئے استعمال ہوتاہے اور پچھلی مرتبہ جب شوہر نے لفظ آزاد کے ذریعے تعلیق کی تھی تو بیوی کے رشتہ داروں کے ہاں سے واپس آنے کے بعد عدت کے دوران رجوع کرلیا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ نشے کی حالت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،مذکورہ صورت میں پہلی طلاق تو اس وقت واقع ہوگئی تھی جب شاہد نے کافی عرصہ پہلے بیوی کے رشتہ داروں کے ہاں جانے پر اسے کہا تھا کہ اگر تم وہاں گئی تو میری طرف سے آزاد ہو اور پھر بیوی رشتہ داروں کے ہاں چلی گئی تھی،لیکن چونکہ آزاد کا لفظ آپ کے عرف میں صرف طلاق کے لئے مستعمل ہے،اس لئے اس جملے کے ذریعے رجعی طلاق واقع ہوئی تھی،جس کے بعد عدت کے دوران میاں بیوی کے ملاپ سے رجوع ہوگیا تھا۔

اور دوسری اور تیسری طلاق اب واقع ہوئی ہے،جب شاہد نے فون پر بیوی سے دو مرتبہ کہا اگر ایک گھنٹے کے اندر تم نہیں آئی میری طرف سے طلاق ہے اور اس کے بعد بیوی اس کے گھر نہیں آئی،جبکہ اس کے بعد شاہد نے اپنی ساس سے دو بار طلاق کے جو جملے بولے وہ لغو ہوگئے،کیونکہ تین طلاقیں واقع ہونے کے بعد بیوی طلاق کا محل نہیں رہی۔

لہذا اب شاہد اور اس بیوی کے درمیان حرمت غلیظہ قائم ہوچکی ہے،جس کے بعد اب موجودہ حالت میں ان دونوں کا دوبارہ نکاح بھی ممکن نہیں ہے۔

حوالہ جات
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق" (9/ 359):
"( قوله : سرحتك فارقتك ) وجعلهما الشافعي من الصريح لورودهما في القرآن للطلاق كثيرا قلنا المعتبر تعارفهما في العرف العام في الطلاق لاستعمالهما شرعا مرادا هو بهما كذا في فتح القدير ، وفي الكافي ولنا الصريح ما لا يستعمل في غير النساء وهم يقولون سرحت إبلي وفارقت غريمي ومشايخ خوارزم من المتقدمين ومن المتأخرين كانوا يفتون بأن لفظ التسريح بمنزلة الصريح يقع به طلاق رجعي بدون النية كذا في المجتنى ، وفي الخانية لو قال : أنت السراح فهو كقوله أنت خلية اعزبي".
"الدر المختار " (3/ 355):
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا".
"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ": (ج 3 / ص 285) :
"( فإن وجد الشرط فيه ) أي في الملك بأن كان النكاح قائما أو كان في العدة (انحلت اليمين ووقع الطلاق ".
"البحر الرائق " (3/ 257):
"ولا حاجة إلى الاشتغال بالأدلة على رد قول من أنكر وقوع الثلاث جملة لأنه مخالف للإجماع كما حكاه في المعراج ولذا قالوا: لو حكم حاكم بأن الثلاث بفم واحد واحدة لم ينفذ حكمه؛لأنه لا يسوغ فيه الاجتهاد لأنه خلاف لا اختلاف".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

17/شوال1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب