021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دادا کے میراث میں پوتے کا حصہ
77044میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

 میرے دادا کا انتقال 5 فروری 2013ہوا تھا، اس کے بعد 6 ستمبر 2018 کو میرے والد صاحب انتقال کر گئے،دادا مرحوم کے ترکہ میں ایک گھر ہے جس میں میرے تایا،چچا، اور پھوپھی وغیرہ رہتے ہیں جبکہ میرے والد مرحوم دوسرے الگ سے مکان میں رہتے تھے، دادا کے ورثاء میں 4 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں۔

اب میرے والد کو فوت ہوئے تقریبا چار سال ہوئے ہیں، اپنی وفات سے تقریبا ایک سال پہلے ہمارے والد صاحب نے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے دادا کے وراثت میں سے حصہ مانگا تھا تو ورثاء نے ان کی بات کو ٹال دیا تھا، اس وقت ہم پریشان اور مقروض بھی تھے،پھر  والد صاحب کے انتقال کے بعد ہم نے اپنا حصہ مانگا تو انہوں نے کوئی خاطر  خواہ جواب نہیں دیا، موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مجھے فی الحال پیسوں کی اشد ضرورت ہے کیونکہ میری والدہ صاحبہ بلڈ پریشر اور شوگر کی مریضہ ہیں، میں اور میرا بھائی پارٹ ٹائم میں زیر تعلیم ہیں، اس وجہ سے فیس کے اخراجات، ادویات، گھر کے اخراجات میں مشکل ہورہی ہے، کیونکہ ابھی فی الحال صرف میں ہی ایک پرائیویٹ نوکری کررہا ہوں جس کا معاوضہ 25 ہزار ملتا ہے۔

مجھے دادا کے وراثت میں سے اگر میرا حصہ مل جائے تو میں ان شاء اللہ اپنا مستقل بزنس شروع کروں گا، جس کے ذریعے میں اپنے تعلیمی اخراجات پورا کرسکوں گا۔

ازراہ کرم آپ شریعت کی روشنی میں اس بابت رہنمائی فرمائیں کہ دادا کی میراث کیسے تقسیم کی جائے اور اس میں میرا کتنا حصہ بنتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ میت کے انتقال کے بعد میت کے  ترکہ میں جن حقوق کی ادائیگی واجب ہے،(جن کا تذکرہ آگے آرہا ہے) ان کی ادائیگی کے بعدبقیہ میراث میں وارثوں کا حق متعلق ہوجاتا ہے اس لئے ترکہ جلد از جلد تقسیم کردینا چاہیے ،بسااوقات تاخیر  ہونے سے بہت زیادہ پیچیدگیاں اور بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں ، بعض مرتبہ زیادہ تاخیر ہونے سے تقسیم ِ میراث میں سخت الجھنیں اور مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں جس کے نتیجے میں  بعض ورثہ ایک دوسرے کا حق انجانے میں کھاجاتےہیں اور کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان بھائی کےحق پر بغیر کسی شرعی سبب کے اپنا قبضہ جمائے،"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ظلم وزیادتی کرتے ہوئے کسی  شخص کی ایک بالشت جگہ غصب کرلے گا، تو کل قیامت کے دن اللہ رب العزت سات زمینوں کا طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دے گا"۔

لہذا سائل کے چچا اور پھوپھی وغیرہ کو چاہئے کہ وہ دادا مرحوم کی میراث کی تقسیم میں مزید تاخیر سے کام نہ لیں۔  

  دادا کے انتقال کے وقت چار بیٹے اور تین بیٹیاں موجود تھے، بعد میں ان کے ایک بیٹے کا انتقال ہوا ، لہذا دونوں میتوں کے ورثہ میں ترکہ حسب ذیل تقسیم ہوگا:

دادا نے بوقت انتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال وجائیداد،مکان، جانور، دکان،نقد رقم،سونا چاندی،زیورات غرض ہر قسم کا چھوٹا بڑا گھریلوسازوسامان چھوڑا ہے وہ سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے مسنون اخراجات ادا کیے جائیں، اگر یہ اخراجات کسی نے احسان کے طور پر ادا کردیے ہوں،تو ان کے ترکے سے یہ اخراجات نہیں نکالے جائیں گے۔ پھر اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو وہ ان کے ترکے سے ادا کریں۔ اس کے بعد دیکھیں کہ اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کسی غیر وارث کے حق میں کی ہو تو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی کی حد تک اس پر عمل کریں، اس کے بعد مرحوم کے کل ترکہ منقولی وغیر منقولی کو11 حصوں میں تقسیم کیا جائے، جس میں سے دو دو حصے ان کے ہر بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو دیا جائے۔

فیصدی اعتبار سے ان کے درمیان ترکہ یوں تقسیم ہوگا کہ ہر بیٹے کو 18.1818%فیصد اور ہر بیٹی کو 9.0909% فیصد دیا جائے۔

فیصدی حصے

عددی حصے

ورثہ

نمبر شمار

18.1818%

2

بیٹا

   1                                        

18.1818%

2

بیٹا

          2

18.1818%

2

بیٹا

  3

18.1818%

2

بیٹا

   4

9.0909%

1

بیٹی

 5

9.0909%

1

بیٹی

   6

9.0909%

1

بیٹی 

   7

100%    

11

مجموعہ

 

 اس کے بعد جس بیٹے کا انتقال ہوا ہے،یعنی (آپ کے والدصاحب)سب سے پہلےان کے ترکہ سے تجہیز و تکفین کا خرچ نکالنے کے بعد اگر ان کے ذمہ قرض وغیرہ مالی واجبات ہوں تو انہیں ادا کیا جائے،پھر اگر انہوں نے کوئی وصیت کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی تک اسے پورا کیا جائے، پھر ان کو اپنے والد صاحب سے ملنے والے حصے 18.1818% اور ان کی اپنی ذاتی جائیداد کو 16 حصوں میں تقسیم کیا جائے، جس میں سے ان کی بیوہ کو 2 حصے، ہر بیٹے کو سات سات حصے دیئے جائیں۔

فیصدی اعتبار سے تقسیم یوں ہوگی کہ بیوہ کو12.5% فیصد، ہر بیٹے کو 43.75%دیا جائے۔

حوالہ جات
صحيح البخاري (3/ 130)
2453 - حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا حسين، عن يحيى بن أبي كثير، قال: حدثني محمد بن إبراهيم، أن أبا سلمة، حدثه أنه، كانت بينه وبين أناس خصومة فذكر لعائشة رضي الله عنها، فقالت: يا أبا سلمة اجتنب الأرض، فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من ظلم قيد شبر من الأرض طوقه من سبع أرضين»

محمدنصیر

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

٠٦ ذوالقعده ١٤٤٣ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب