021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کے تعنت کی بنیاد پر شہادت کے بغیر کئے گئے عدالتی خلع کا حکم
77190طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

میری شادی کو دس سال ہوگئے ہیں،میرے دو بچے ہیں،شادی کے تین سال بعد میرے شوہر نے دوسری شادی کرلی،دوسری شادی کے بعد میرے شوہر کا رویہ میرے ساتھ اچھا نہیں رہا،جب مجھے میرے شوہر کی دوسری شادی کا علم ہوا تو ہمارے درمیان گھریلو بدمزگی ہوگئی،گھر والوں کے کافی دباؤ کے باوجود میرے شوہر نے دوسری عورت کو نہ چھوڑا،بلکہ وہ مجھے اور بچوں کو چھوڑ کر دوسری عورت کے پاس چلے گئے،میں ایک سال اپنے سسرال میں رہی،لیکن میرے شوہر نے مجھ سے اور بچوں سے کوئی تعلق نہیں رکھا،ان کے رویے کو دیکھتے ہوئے مجھے اپنی والدہ کے ساتھ اپنے میکے آنا پڑا،کیونکہ میرے شوہر نہ تو میرا اور بچوں کا کوئی خرچہ اٹھاتے تھے اور نہ ہی مجھ سے ازدواجی تعلقات رکھتے تھے،لہذا مجبوراً میں اپنے میکے آگئی،یہاں آکر وقتاً فوقتاً میں نے اور میرے والد صاحب نے بہت کوشش کی،لیکن میرے شوہر کی طرف سے کوئی پیش رفت نہ ہوئی،پچھلے چھ سال سے میں اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی ہوں،میرے شوہر نہ آتے ہیں اور نہ ہی مجھ سے اور بچوں سے ٹیلی فون پر کوئی رابطہ رکھتے ہیں،میرا اور بچوں کا کسی قسم کا کوئی خرچہ اور ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں،ان تمام حالات سے تنگ آکر میں خلع کی درخواست کی ہے،چھ سال سے میرے اور شوہر کے درمیان کسی قسم کے ازداواجی تعلقات قائم نہیں ہوئے،برائے مہربانی دین کی روشنی میں میری راہنمائی فرمائیں اور واضح فرمائیں کہ عدالت نے خلع کی جو ڈگری جاری کی ہے وہ شرعاً معتبر ہے یا نہیں؟

اور کیا عدت گزارنے کے بعد میں کسی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہوں؟عدالت کا فیصلہ منسلک ہے۔

تنقیح:سائل سے فون پر تنقیح سے معلوم ہوا کہ عدالت نے عورت سے گواہ طلب نہیں کئے تھے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرچہ مذکورہ صورت میں شرعاً فسخ نکاح کی معقول وجہ(شوہر کا تَعَنُّت) موجود ہے،لیکن چونکہ مذکورہ صورت میں عدالت نے عورت سے اس کے دعوی پر گواہ طلب نہیں کیے،بلکہ محض عورت کے یکطرفہ بیان کی بنیاد پر خلع کی ڈگری جاری کردی،اس لیے شرعا عدالت کا یہ فیصلہ نافذ نہیں ہوا اور یہ عورت بدستور سابقہ شوہر کے نکاح میں ہے،جب تک سابقہ نکاح ختم نہیں ہوجاتا تب تک یہ عورت کسی اور جگہ نکاح نہیں کرسکتی۔

اب نکاح کو ختم کرنے کا سب سے بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ کسی مناسب طریقے سے کوشش کرکے شوہر کو طلاق دینے پر آمادہ کیا جائے،اگر وہ بغیر عوض کے طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو پھر کسی عوض مثلا مہر وغیرہ کے بدلے اس سے خلع لینے کی کوشش کرلی جائے،اگرچہ شوہر کے قصوروار ہونے کی صورت میں اس کے لئے طلاق کے بدلے کوئی عوض لینا جائز نہیں،پھر اگر شوہر نہ طلاق دینے پر آمادہ ہو اور نہ خلع پراور نہ ہی بیوی کے حقوق کی رعایت رکھتے ہوئے اسے ساتھ رکھنے کے لئے تیار ہو اور عورت کے لئے شوہر سے خلاصی حاصل کئے بغیر کوئی چارہ نہ ہو یعنی نہ عورت اپنی عزت محفوظ رکھ کر کسبِ معاش کی کوئی صورت اختیار کرسکتی ہو اور نہ مستقل طور پر کوئی اس کے مصارف برداشت کرنے پر آمادہ ہو یا عورت کے معصیت میں ابتلاء کا اندیشہ ہو تو پھر یہ عورت دوبارہ عدالت سے رجوع کرے اور اپنی بات ثابت کرنے کے لیے اپنے دعوی کے ساتھ دو گواہ یا اسٹام پیپر پر ان کی تحریری گواہی بھی جج کے سامنے پیش کرے،جب دو گواہوں کی گواہی کے ساتھ عورت کا دعوی صحیح ثابت ہوجائے تو پھر عدالت شوہر کو سمن بھجواکر عدالت میں حاضر ہونے کا حکم نامہ جاری کرے،جب شوہر عدالت آجائے تو اسے کہے کہ یا تو بیوی کے حقوق ادا کرو یا پھر طلاق دے دو،اگر وہ ان میں سے کسی بات پر آمادہ نہ ہو یا عدالت آئے ہی نہیں تو مذکورہ صورت میں قاضی کو بغیر کسی مہلت کے فوری طور پر نکاح فسخ کرنے کا حق حاصل ہوگا،کیونکہ شوہر کے تعنت کو چھ سال کا طویل عرصہ گزرچکا ہے، اس کے بعد عورت عدت گزارے گی،عدت گزرنے کے بعد اسے کسی اور سے نکاح کا حق حاصل ہوگا۔

اور اگر دوبارہ عدالت سے رجوع میں مشکل ہو تو اپنے علاقے کی پنچائیت میں اس معاملے کو لے جائے اور اس کے سامنے اپنی بات کو گواہوں سے ثابت کردے،اس کے بعد پنچائیت کو مذکورہ بالا طریقہ کار کے مطابق عورت کے نکاح کو فسخ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

تنبیہ: اگر پنچائیت سے فیصلہ کرایا جائے تو اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ وہ پنچائیت کم از کم تین ایسے ارکان پر مشتمل ہو جو سب علماء ہوں،اگر علماء میسر نہ ہوں تو کم از کم نیک ہوں اور کسی ایسے عالم سے راہنمائی لے کر فیصلہ کریں جو شہادت اور قضاء کے احکام سے بخوبی واقف ہوں،نیز فسخِ نکاح کا فیصلہ پنچائیت کے تمام ارکان کے اتفاقِ رائے سے ہو کسی کا اختلاف نہ ہو۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" (4/ 3):
"(وأما حكمها) فاستحقاق الجواب على الخصم بنعم أو لا فإن أقر ثبت المدعى به وإن أنكر يقول القاضي للمدعي: ألك بينة فإن قال: لا، يقول لك يمينه ولو سكت المدعى عليه ولم يجبه بلا أو نعم فالقاضي يجعله منكرا حتى لو أقام المدعي البينة تسمع كذا في محيط السرخسي".
"رد المحتار"(ج 12 / ص 122):
"( قوله : وكره تحريما أخذ الشيء ) أي قليلا كان ، أو كثيرا .
والحق أن الأخذ إذا كان النشوز منه حرام قطعا { فلا تأخذوا منه شيئا}  إلا أنه إن أخذ ملكه بسبب خبيث ، وتمامه في الفتح ، لكن نقل في البحر عن الدر المنثور للسيوطي : أخرج ابن أبي جرير عن ابن زيد في الآية قال : ثم رخص بعد ، فقال : { فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به } ، قال :فنسخت هذه تلك ا هـ وهو يقتضي حل الأخذ مطلقا إذا رضيت ا هـ أي سواء كان النشوز منه أو منها ، أو منهما .
لكن فيه أنه ذكر في البحر أولا عن الفتح أن الآية الأولى فيما إذا كان النشوز منه فقط ، والثانية فيما إذا لم يكن منه فلا تعارض بينهما ، وأنهما لو تعارضتا فحرمة الأخذ بلا حق ثابتة بالإجماع ، وبقوله تعالى{ ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا } وإمساكها لا لرغبة بل إضرارا لأخذ مالها في مقابلة خلاصها منه مخالف للدليل القطعي فافهم" .
"رد المحتار" (5/ 414):
"وقال في جامع الفصولين: قد اضطربت آراؤهم وبيانهم في مسائل الحكم للغائب، وعليه ولم يصف ولم ينقل عنهم أصل قوي ظاهر يبنى عليه الفروع بلا اضطراب ولا إشكال فالظاهر عندي أن يتأمل في الوقائع، ويحتاط ويلاحظ الحرج والضرورات فيفتي بحسبها جوازا أو فسادا، مثلا لو طلق امرأته عند العدل فغاب عن البلد، ولا يعرف مكانه أو يعرف، ولكن يعجز عن إحضاره أو عن أن تسافر إليه هي أو وكيلها لبعده أو لمانع آخر، وكذا المديون لو غاب وله نقد في البلد أو نحو ذلك، ففي مثل هذا لو برهن على الغائب، وغلب على ظن القاضي أنه حق لا تزوير، ولا حيلة فيه فينبغي أن يحكم عليه وله، وكذا للمفتي أن يفتي بجوازه دفعا للحرج والضرورات وصيانة للحقوق عن الضياع مع أنه مجتهد فيه، ذهب إليه الأئمة الثلاثة وفيه روايتان عن أصحابنا، وينبغي أن ينصب عن الغائب وكيل يعرف أنه يراعي جانب الغائب ولا يفرط في حقه اهـ وأقره في نور العين.
قلت: ويؤيده ما يأتي قريبا في المسخر، وكذا ما في الفتح من باب المفقود لا يجوز القضاء على الغائب إلا إذا رأى القاضي مصلحة في الحكم له وعليه فحكم فإنه ينفذ؛ لأنه مجتهد فيه اهـ.
قلت: وظاهره ولو كان القاضي حنفيا ولو في زماننا ولا ينافي ما مر؛ لأن تجويز هذاللمصلحة والضرورة".
"الفواكه الدواني "(2/ 41):
"(تنبيهات) الأول: لم ينص المصنف على من ترفع له زوجة المفقود، وقد ذكرنا عن خليل أنه القاضي أو الوالي أو جماعة المسلمين، ولكن عند وجود الثلاثة لا ترفع إلا للقاضي لا لغيره، فإن رفعت لغيره مع التمكن من الرفع له حرم عليها ذلك، وإن مضى ما فعله إن كان هو الوالي أو والي الماء لا جماعة المسلمين، هذا ما يظهر من كلام ابن عرفة كما قاله الأجهوري، وأما لو رفعت لجماعة المسلمين مع وجود الوالي أو والي الماء فالظاهر مضي فعلهم.
وفي السنهوري وتبعه اللقاني أن ظاهر كلام خليل أن الثلاث في مرتبة واحدة وهو كذلك إلا أن القاضي أضبط، ووجود القاضي أو غيره مما ذكر مع كونه يجوز أو يأخذ المال الكثير بمنزلة عدمه فترفع لجماعة المسلمين".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

18/ذی قعدہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب