021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اولاد کو ہدیہ دینے میں کمی بیشی کا حکم
77381میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

آپ کے سوال کا حاصل درج ذیل ہے:

1۔آپ لوگ کل گیارہ بہن بھائی ہیں،جن میں سے آٹھ بھائی اور تین بہنیں ہیں،ان میں سے آپ کا نمبر تیسرا ہے،والد صاحب کا چھوٹا سا بزنس اور کچھ زرعی زمین تھی،جس سے گزر بسر چل رہاتھا،بڑے بھائی کی شادی کے بعد والد صاحب نے گھر یلو اختلافات کی بناء پر بڑے بھائی کو ایک پلاٹ دے کر فارغ کردیا،پھر چھوٹے بھائی کی شادی کے بعد اسے بھی ایک چلتی ہوئی دکان اور بعد ازاں ایک پانچ مرلے کا پلاٹ دے کر الگ کردیا۔

2۔آپ نے والدصاحب کے کاروبار کو ترقی دی،چنانچہ آپ نے گروسری کی دو مزید دکانیں کھولیں اور  ایک چھوٹا پلازہ بھی تعمیر کروایا،واضح رہے کہ اس کاروبار کا بنیادی سرمایہ سارا کاسارا والد صاحب کا تھا،کسی بھائی کی اس میں کوئی رقم شامل نہیں تھی۔

3۔2004 میں آپ انگلینڈ چلے گئے اور چند ماہ کے اندر ہی اخراجات کی وہ رقم جو آپ نے انگلینڈ جانے کے لئے والد اور بھائیوں سے لی تھی واپس بھجوادی اور اس کے علاوہ بھی وقتا فوقتا والداور بھائیوں سے تعاون کرتے رہے۔

4۔ انگلینڈ جانے کے بعد میرے کچھ بہن بھائیوں اور فیملی ممبران نے مل کر والد صاحب کو ہمارے خلاف ورغلایا اور خود سے جائیداد کی تقسیم کا ایک فارمولا بناکر والد صاحب کے سامنے رکھا اور والد صاحب پر دباؤ ڈال کر اور غلط بیانی کرکے ساری جائیداد اپنے نام کروالی اور میرے ان بھائیوں کو لاعلم رکھا  جنہیں والد صاحب جائیداد میں حصہ دے چکے تھے،مجھے بھی اس ڈر سے لاعلم رکھا کہ کہیں میں اپنی محنت کے بل بوتے پر پروان چڑھنے والے کاروبار میں زیادہ حصے کا مطالبہ نہ کرلوں،بہرحال اس وقت تو والد صاحب ان کی باتوں میں آکراس تقسیم پر راضی ہوگئے تھے،لیکن بعد میں اس کی وجہ سے پریشان تھے۔

5۔ والد صاحب کا انتقال2015 میں ہوا،ان کی وفات کے بعد یہاں موجود بہن بھائیوں نے جائیداد آپس میں تقسیم کرلی اور چھوٹا بھائی جو ان کے پاس رہائش پذیر تھا اسے بھی حصہ نہیں دیا۔

6۔اس کے  بعد 2020 میں والدہ بھی فوت ہوگئیں،اس وقت چھوٹے بھائی نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اسے حصہ دلواؤں،جب میں نے بھائیوں سے بات کی تو وہ بولے کہ اس نے ایسا کیا کام کیا ہے کہ ہم اسے اس کا حصہ دیں،خیر پھر بڑے بھائی بولے کہ والد صاحب نے وصیت میں اس کا حصہ 26 لاکھ روپے مقرر کیا تھا،جس میں سے دس لاکھ کا پلاٹ اسے دے دیا ہے اور باقی سولہ لاکھ اسے دینے ہیں،جب اس حوالےسے میں نے بقیہ بہن بھائیوں سے پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور بولے کہ اصل میں والد صاحب نے ان پیسوں سے اس کی شادی کروانے کا فرمایا تھا اور کاروبار سے حصہ دینے کے علاوہ ڈبل اسٹوری مکان بنواکر دینے کی بھی وصیت فرمائی تھی،جب بات زیادہ بڑھی تو بڑے بھائیوں نے ایک وصیت نامہ دکھایا،جس کے حوالے سے جانچ پڑتال سے معلوم ہوا کہ وہ نقلی تھا،نہ اس پر کوئی تاریخ درج تھی،نہ کوئی گواہ۔

7۔ ہمارے والد صاحب کی کچھ زرعی اراضی بھی تھی جس میں میرے والد صاحب کے بہن بھائیوں کا حصہ بھی تھا،میرے ان دونوں بھائیوں نے اسی کا روبارسے پیسے نکال کر والد صاحب کے بہن بھائیوں کوا ن کے حصے کی رقم دے کروہ زمین بھی اپنے نام کروالی،ان کا کہنا ہے کہ اس زمین کے حصے داروں کو پیسے ہم نے دیئے ہیں، اس لئے یہ زمین اب ہماری ہے، اس پر کسی کا کوئی حق نہیں بنتا،جبکہ ان کا کوئی علیحدہ ذاتی بزنس نہیں تھا،نہ کوئی اپنے ذرائع آمدن تھے،بلکہ اسی کاروبار سے جس کی بنیا د والد صاحب نے رکھی تھی اور جسے میں نے اپنی محنت سے مزید بڑ ھایا اور پھیلایا تھا، سے پیسے نکال کر حصوں کی ادائیگی کی گئی تھی،اسی کا روبار سے انہوں نے اپنے گھر چلائے، بچوں کو پڑھایا لکھایا، نئے نئے ماڈل کی گاڑیاں خریدتے رہے،جبکہ ہم تینوں بھائیوں نے جو بیرون ملک آ گئے تھے یا ہمارے بچوں نے والد صاحب کے کاروبار سے ایک پیسہ تک نہیں لیا، حالانکہ شروع میں ہم نے بھی اسی طرح محنت کی تھی اور والد صاحب کے دست راست رہے۔

8۔جب میرے چاروں بھائیوں کو جن میں سے دو اس وقت جائیداد کے ستر فیصد حصے پر قابض ہیں اور ان سے دو چھوٹے جو تیس فیصد حصے پر قابض ہیں کو اندازہ ہوا کہ وصیت والا حربہ کارگر نہیں ہورہا تو انہوں مجھ سے مطالبہ کیا کہ  اگرتم وراثت سے حصہ لینا چاہتے ہوتو پھر تم نے بیرون ملک آج تک جو کچھ کمایا/بنایا ہے وہ پاکستان لے کر آؤ اور پاکستان میں موجود جائیداد میں شامل کرو،پھر ہم ساری جائیداد تقسیم کریں گے،واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں ہمارے والد صاحب کی تمام جائیداد بشمول زرعی اراضی کی کل مالیت سات سے آٹھ کروڑ روپے بنتی ہے۔

اب اس تمہید کی روشنی میں مجھے درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

سوال (1):جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا ہے کہ والد صاحب نے میرے دو بھائیوں کو ان کی مرضی کے بغیر بلا کسی شرعی تقسیم یا حساب کتاب کے غصے/ لاعلمی کے سبب تھوڑا بہت حصہ دے کر الگ کر دیا ،کیا والد صاحب کا ایسا کرنا درست تھا؟ اوراب ان کا والد صاحب کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں بنتا؟

سوال(4): کیا والد کوشریعت نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بیٹی/بیٹے کو کم یا زیا دہ حصہ دے سکتا ہے یا کسی کو حصے سے محروم کر سکتا ہے؟

سوال(5):اگر والد صاحب نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو کیا روز محشران کی گرفت ہوگی؟

سوال(6): والد نے یہ غیر شرعی تقسیم کر کے جن بچوں کے ساتھ ظلم کیا/ان کی حق تلفی کی،کیا وہ بیٹا یا بیٹی انہیں معاف کر دیں تو والد صاحب کی بریت ہو جائے گی؟ اور معاف کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟

سوال(7): اگر والد صاحب نے لاعلمی میں اپنے بیٹوں،بیٹیوں،دامادوں کے دباؤ یاباتوں میں آ کر یہ غلط اور غیر شرعی تقسیم کر دی ہے(جس کا بعد میں ان کو احساس بھی ہو گیا تھا اور وہ اسے درست بھی کرنا چاہتے تھے،لیکن موت نے انہیں مہلت نہ دی) تو کیا اس پر وہ اللہ کی پکڑ سے بچ جائیں گے؟

سوال(8):اگر اللہ،رسول ﷺکے احکامات کی رو سے یہ تقسیم غلط اور غیر شرعی ہے تو وہ تمام لوگ (ان کے داماد،بیٹے اور بیٹیاں یا دوسرے لوگ) جنہوں نے دباؤ ڈال کر یا کسی اور طریقے سے یہ ظلم کروایا اورغلط تقسیم کروا کر میری اور دوسرے بہن بھائیوں کی حق تلفی کروائی، ان کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہوں گے؟ کیا وہ بھی گرفت میں آئیں گے؟

سوال(10):جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں اور تمام بہن بھائی بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وفات سے کچھ عرصہ قبل والد صاحب کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ یہ مجھ سے ظلم ہوگیا ہے اور وہ اسے ٹھیک بھی کروانا چاہتے تھے،لیکن موت سے مہلت نہ مل سکی۔

سوال یہ ہے کہ اب چاروں بھائی جو اس کاروبار/جائیداد پر قابض ہیں،ان کی ذمہ داری کیا بنتی ہے؟ کیا وہ شرعی طور پر اس بات کے پابند نہیں کہ تمام جائیداد کو شرعی تقاضوں کے مطابق سب بہن بھائیوں میں تقسیم کریں؟ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو کیا یہ مال ان کے لئے جائز/حلال ہو گا؟ اور اگر وہ اسی مال سے ز کوٰۃ، عمرہ، حج یا صدقہ وغیر ہ کر تے ہیں توان کے ان اعمال کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟

سوال(16): والدکے مرنے کے بعد والد کی کی گئی غلط اور غیر شرعی تقسیم کے بارہ میں شریعت کے کیا احکام ہوں گے؟ کیا وہ بچے جنہیں والد نے اپنی زندگی میں وراثت کے شرعی حق سے محروم کر دیاتھا،کیا والد کی وفات کے بعد بھی شریعت میں محروم تصور کئے جائیں گے یا وہ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ اپنے شرعی حق کے لئے عدالت سے رجوع کریں؟

تنقیح:

سائل سے تنقیح کے بعد درج ذیل باتیں سامنے آئیں:

(1)دباؤ کی سائل نے یہ وضاحت کی کہ یہاں موجود کچھ لوگوں نے غلط بیانی کے ذریعے والد صاحب کو ورغلایا،جن کے بہکاوے میں آکر والد نےجائیداد ان کے نام کردی۔

(2)بھائیوں نے خود تقسیم کا ایک فارمولا  لکھوایااور والد صاحب کے سامنے رکھ کر والد صاحب کو اس کے مطابق تقسیم پر آمادہ کرلیا اور پھر والد کی وفات کے بعد اس فارمولے کے مطابق جائیداد آپس میں تقسیم کردی،یعنی والد کی زندگی میں نہ قبضہ ملا اور نہ تقسیم ہوئی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پہلے تو آپ بطور تمہید یہ بات سمجھ لیں کہ وارث کے حق میں وصیت شرعاً معتبر نہیں ہوتی،لہذا اگر آپ کے والد نے ورثہ میں سے کسی کے حق میں کوئی وصیت کی ہے جیسا کہ تمہید میں چھوٹے بھائی کے لئے وصیت کا ذکر کیا گیا ہے تو شرعا اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

اس کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

1،4،16۔زندگی میں اپنی جائیدادمیں سے اولاد کو کچھ دینا ہبہ کے حکم میں ہے اور عام حالات میں اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری مستحب ہے ،یعنی سب کو ،چاہے لڑکا ہو یا لڑکی برابر حصہ دیا جائے، بغیر کسی معقول وجہ ترجیح کے، محض نقصان پہنچانے کی غرض سے بعض کو کم اور بعض کو زیادہ دینا درست  نہیں،البتہ اگرکمی بیشی کی کوئی معقول وجہ ہو،جیسےاولاد میں سے کسی کا زیادہ تنگدست ہونا، زیادہ عیالدار ہونا،بعض کا خدمت گار ہونا اور بعض کا نافرمان ہوناوغیرہ توایسی صورت میں جو زیادہ تنگدست،عیالدار یا خدمت گار ہو اسے زیادہ دیا جاسکتا ہے،لیکن کسی کو بالکل محروم کردینا جائز نہیں۔

نیز ہبہ کے تام ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز جسے ہبہ کی جائے اس کے قبضے میں بھی دے دی جائے اور اگر ایک سے زیادہ لوگوں کو کوئی ایسی چیز ہبہ کی جائے جو تقسیم کے قابل ہو تو اسے باقاعدہ تقسیم کرکے دیا جائے،قبضہ دیئے بغیر محض کسی کے نام کروانے یا تقسیم کے بغیر مشترکہ طور پر ہبہ کرنے سے ہبہ تام نہیں ہوتا اور ہبہ کی گئی چیز ہبہ کرنے والے کی ملکیت میں بدستور باقی رہتی ہے۔

چونکہ آپ کے والد صاحب نے اپنی جائیداد اپنی زندگی میں باقاعدہ تقسیم کرکے بھائیوں کے قبضے میں نہیں دی،بلکہ انہوں خود سے تقسیم کا ایک فارمولا بناکر والد صاحب کو اس کے مطابق تقسیم کرنے پر آمادہ کرلیا تھا اور والد نے ان کی باتوں میں آکر اس کے مطابق جائیداد ان کے نام تو کروادی تھی،لیکن اپنی زندگی میں باقاعدہ تقسیم کرکے ان کے قبضے میں نہیں دی،اس لئے یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا،جس کی وجہ سے وہ جائیداد بدستور ان کی ملکیت میں رہی،لہذا والد کی وفات کے وقت اس جائیداد سمیت جو بھائیوں نے ان سے اپنے نام کروائی تھی جو بھی سونا،چاندی،نقدی،مال تجارت یا اس کے علاوہ کوئی بھی چھوٹا بڑا سامان ان کی ملکیت میں تھا،سب ان کا ترکہ ہے،جس میں سے تمام ورثہ کو ان کے حصے دینا لازم ہے۔

اگر جائیداد پر قابض بھائی بقیہ بہن بھائیوں کو ان کا حصہ دینے پر آمادہ نہ ہوں تو آپ اپنے حصے کے وصولی کے لئے عدالت سے بھی رجوع کرسکتے ہیں۔

البتہ آپ کے والد نےآپ سے چھوٹے بھائی کو جو پلاٹ اور دکان یہ کہہ کر ان کے حوالے کردی تھی کہ اب میراث میں تمہارا کوئی حصہ باقی نہیں رہا،اسی طرح بڑے بھائی کو جو پلاٹ یہ بات کہہ کر ان کے حوالے کردیا تھا تو ہبہ کی شرائط مکمل ہونے کی وجہ سے وہ دونوں ان پلاٹوں اور دکان کے مالک ہوگئے تھے،اس لئے ان دونوں کو دیئے گئے پلاٹ اور دکان تو ترکہ میں شامل نہیں ہوں گے،لیکن چونکہ زندگی میں کسی وارث کو کچھ مال دے کر یہ کہنے سے کہ اب میراث میں تمہارا کوئی حصہ باقی نہیں رہا،اس وارث کا میراث میں سے حصہ ختم نہیں ہوتا،اس لئے والد صاحب کی وفات کے بعد اب ان کی جائیداد میں دیگر بھائیوں کی طرح ان دونوں  کا بھی حق ہوگا۔

 5،6،7۔چونکہ ہبہ کی شرائط مکمل نہ ہونے کی وجہ سےشرعی لحاظ سے بقیہ بہن بھائیوں کا حق تلف ہونےسے بچ گیا ہےاور ان بھائیوں کے ذمے جو جائیداد پر قابض ہیں لازم ہے کہ تمام ورثہ کو اس میں سے حصہ دیں،لہذا اگر جائیداد پر قابض بھائی اسے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردیں گے تو وہ خود اور ان کے والد محترم عذابِ آخرت سے بچ جائیں گے۔

لیکن اگر وہ لوگ دنیا کی عارضی دولت کی حرص و ہوس کا شکار ہوکر ایسا نہ کریں تو پھر والد کایہ اقدام(جائیداد کا بعض اولاد کے نام کروادینا) اولاد میں سے جن کی حق تلفی کا سبب بنا ہےاگر وہ اپنا حق انہیں بخش دیں تو ان شاء اللہ اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ وہ بھی انہیں معاف کردیں گے۔

8،10۔ غلط بیانی اور جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے،خاص کر جب اس کا مقصد کسی کو اس کے جائز حق سے محروم کرنا ہو،اس لئے جو ورثہ اس کے مرتکب ہوئے ہیں،ان کے ذمے سچے دل سے توبہ و استغفار لازم ہے،لیکن ان کے بہکاوے میں آکر والد نے انہیں اپنی جائیداد میں سے جو کچھ ان کے نام کروایا تھا،ہبہ کی شرائط مکمل نہ ہونے کی وجہ وہ ان کی ملکیت میں نہیں آیا،اس لئے اب ان کے ذمے لازم ہے کہ اپنے اس غلط عمل کے ذریعے انہوں جن ورثہ کی حق تلفی کی کوشش کی تھی ان کا حق انہیں لوٹا دیں۔

اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اپنے شرعی حق سے زائد جائیداد کے جس حصے پر وہ قابض ہوں گے وہ ان کے لئے حرام ہوگا اور اس حرام مال سے زکوة کی ادائیگی،عمرہ و حج اور دیگر صدقات کا انہیں کوئی ثواب نہیں ملے گا۔

حوالہ جات
"الدر المختار" (6/ 655):
"(ولا لوارثه وقاتله مباشرة) لا تسبيبا كما مر (إلا بإجازة ورثته) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث وسنحققه (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته".
"الدر المختار " (5/ 688):
"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح".
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق ": (ج 20 / ص 110) :
"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله لواحد جاز قضاء وهو آثم، كذا في المحيط.
 وفي فتاوى وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة, ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث, هذا خير من تركه؛ لأن فيه إعانة على المعصية، ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته".
"الدر المختار للحصفكي ": (ج 5 / ص 265) :
وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الاولاد في المحبة لانها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الاضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم".
"البزازیہ علی ھامش الہندیۃ"(۶/237):
"الافضل فی ھبۃ الابن والبنت التثلیث کالمیراث وعند الثانی التنصیف وھوالمختار،ولووھب جمیع مالہ من ابنہ جاز ،وھو آثم ،نص علیہ محمد ،ولو خص بعض اولادہ لزیادۃ رشدہ لاباس بہ ،وان کانوا سواءلایفعلہ".
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية" (2/ 26):
"(سئل) في أحد الورثة إذا أشهد عليه قبل قسمة التركة المشتملة على أعيان معلومة أنه ترك حقه من الإرث وأسقطه وأبرأ ذمة بقية الورثة منها ويريد الآن مطالبة حقه من الإرث فهل له ذلك؟
(الجواب) : الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط وقد أفتى به العلامة الرملي كما هو محرر في فتاواه من الإقرار نقلا عن الفصولين وغيره فراجعه إن شئت".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

05/ذی الحجہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب