021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کے کاروبار میں ایک سال تک معاونت کرنے پر اجرت مثل کا حکم (جدید)
77382میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

(2):کیا اس ساری جائیداد/کاروبار جس کی بنیاد تو والد صاحب نے رکھی تھی،مگر میں نے ان کی راہنمائی اور نگرانی میں اپنی شب و روز محنت کے بل بوتے پراُسےبڑھایا/پھیلایاتھا،کیا اس کا شرعی طور پر میں اکیلا وارث ہوں یا تمام بہن بھائی اس میں برابر کے حصے دار ہیں؟

سوال(9):کیا یہ تمام کاروبار اوردکانوں میں موجود کروڑوں کا مال تجارت جو کہ والد صاحب کی موجودگی اور سر پرستی میں بنایا گیا اور جو سب بھائیوں کی مشتر کہ محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہے، صرف ان چار بھائیوں کی ملکیت ہے جو اس وقت اس پر قابض ہیں؟

بہنوں کا کوئی حق یا حصہ نہیں اوران بھائیوں کا بھی کوئی حق یا حصہ نہیں جو شروع سے والد صاحب کے ساتھ کام کر تے رہے؟ بعد میں کوئی حصہ لئے بغیر ا لگ ہو کر بیرون ملک جا کر اپنی محنت مزدوری کرنے لگے؟

سوال(11):کیا وہ بیٹا جو والدصاحب کے ساتھ کام کرتا رہا ہے(جیسا کہ میں نے والد صاحب کے کاروبار کو ترقی دی)بعد میں بیرون ملک جاکر اپنی محنت مزدوری کرنے لگا کیا والد کی جائیداد میں اس بیٹے کا کوئی حق/حصہ نہیں بنتا؟

سوال(13):جیسا کہ میں نے اوپر بتایا ہے کہ میں 2004 میں والد صاحب کا کاروبار دوسرے بھائیوں کے حوالے کر کے بیرون ملک آ گیا،بعد میں میرے بھائیوں نے اسی کا روبا رکو مزید بڑھایا، دکان خر یدی، پلاٹ خریدا،سوال یہ ہے کہ میرے ان بھائیوں نے والد صاحب کے اس کاروبار سے جو مزید جائیداد بنائی شرعی لحاظ سے اس میں میرا اور دوسرے بہن بھائیوں کا حق یا حصہ بنتا ہے؟ یا صرف وہی دو بھائی اس کے مالک ہیں؟ جبکہ بنیادی طور پر کاروبار والد صاحب کاہی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ جب کاروبار میں اصل سرمایہ والد کا ہو اور بیٹے ان کے ساتھ معاونت کے طور پر کام کریں تو ایسی صورت میں اس کاروبار سے حاصل ہونے والے تمام منافع اور اثاثہ جات والد کی ملکیت شمار ہوتے ہیں،بیٹے کی والد کے ساتھ معاونت تبرع سمجھی جاتی ہے،البتہ اگر معاونت کا دورانیہ ایک سال یا اس سے زائد عرصے پر مشتمل ہو تو پھر بیٹے کو اس کی محنت کا معاوضہ اجرت مثل کی صورت میں ملے گا،کیونکہ عرفاً عام طور پر اتنا طویل عرصہ کوئی تبرعاً کام نہیں کرتا۔

لہذا مذکورہ صورت میں چونکہ کاروبار کی بنیاد والد صاحب نے رکھی تھی اور آپ اور آپ کے بعد بقیہ بیٹے ان کے ساتھ معاون کے طور پر کام کرتے رہے،اس لئے اس کے نفع سے خریدی گئی تمام جائیداد والد کی ملکیت تھی اور وفات کے وقت جو جائیداد ان کی ملکیت میں موجود تھی وہ تمام ورثہ میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے۔

تاہم جن بیٹوں نے ایک سال یا اس سے زیادہ عرصہ تک مرحوم والد کے ساتھ کاروبار میں معاونت کی انہیں میراث میں اپنے حصے سے اضافی اتنے عرصے کی محنت کا معاوضہ اجرت مثل کی صورت میں لینے کا حق حاصل ہے،جسے درج ذیل باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے طے کیا جائے گا:

ا۔یہ اندازہ لگایا جائے کہ اگر کوئی ملازم اس قسم کا کام کرتا تو اس کی ماہانہ یا سالانہ تنخواہ کتنی ہوتی۔

۲۔یہ اندازہ کم از کم دو ایسے غیر جانبدار لوگوں سے لگوایا جائے،جنہیں اس کاروبار کی نوعیت کا علم ہو،مارکیٹ سے وابستہ لوگ ہوں تو زیادہ بہتر رہے گا۔

۳۔یہ بھی مدنظر رہے کہ بھائی اس کاروبار سے اپنے ذاتی اور گھریلو اخراجات بھی وصول کرتے رہے ہیں،اس لیے انہیں بھی اس مجموعی تنخواہ سے منہا کیا جائے گا۔

۴۔اتنی تنخواہ مقرر کرنا درست نہیں ہوگا، جس کی وجہ سے دیگر ورثہ کا اکثر حصہ ختم ہوجائے اور ان کے حصے میں کچھ باقی نہ رہے،یا نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔

حوالہ جات
"رد المحتار" (4/ 325):
" الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب ... وفي الخانية: زوج بنيه الخمسة في داره وكلهم في عياله واختلفوا في المتاع فهو للأب وللبنين الثياب التي عليهم لا غير".
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية" (2/ 17):
"وأما قول علمائنا أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط منها اتحاد الصنعة وعدم مال سابق لهما وكون الابن في عيال أبيه فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب وانظر إلى ما عللوا به المسألة من قولهم؛ لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يضع فمدار الحكم على ثبوت كونه معينا له فيه فاعلم ذلك اهـ".
"القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب الأربعة" (1/ 298):
"العادة مُحَكَّمة (م/36)
 التوضيح: إن القاعدة تعني أن العادة عامة كانت أم خاصة تُجعل حكماً لإثبات حكم شرعي لم يُنص على خلافه بخصوصه، فلو لم يرد نص يخالفها أصلاً، أو ورد ولكن عاماً، فإن العادة تعتبر.
وأصل هذه القاعدة قول ابن مسعود، رضي اللہ عنه: "ما رآه المسلمون حسناً فهو عند الله حسن، وما رآه المسلمون قبيحاً فهو عند الله قبيح ".
وهو حديث موقوف حسن، وإنه وإن كان موقوفاً عليه فله حكم المرفوع، لأنه لا مدخل للرأي فيه  ورواه الإمام أحمد في (كتاب السنة) وأخرجه البزار والطيالسي والطبراني وأبو نعيم في (الحلية) والبيهقي في (الاعتقاد) عن ابن مسعود أيضاً.
وعقد الإمام البخاري في كتاب البيوع، باب من أجرى أمر الأمصار على مايتعارفون بينهم في البيوع والإجارة والمكيال والوزن، وسننهم على نياتهم ومذاهبهم المشهورة، وقال شريح للغزالين: سنتكم بينكم ربحاً...
وقال النبي - صلى اللہ عليه وسلم - لهند: (خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف ".
وقال تعالى: (وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ) ، واكترى الحسن من عبد الله بن مرداس حماراً، فقال: بكَم؟ قال: بدانقين، فركبه، ثم جاء مرة أخرى، فقال: الحمارَ الحمارَ، فركبه ولم يشارطه، فبعث إليه بنصف درهم أي كالأجرة السابقة التي تعارفا عليها) .
وساق البخاري رحمه الله تعالى ثلاثة أحاديث في ذلك، وعقب عليها ابن حجر رحمه اللہ تعالى فقال: (مقصوده بهذه الترجمة إثباته الاعتماد على العرف، وأنه يُقضى به على ظواهر الألفاظ".
وقال النووي رحمه اللہ تعالى في فوائد حديث هند رضي اللہ عنها: "ومنها اعتماد العرف في الأمور التي ليس فيها تحديد شرعي ".
وحدد ابن النجار الفتوحي رحمه اللہ تعالى الضابط للرجوع إلى العرف والعادة، فقال: وضابطه: كل فعل رُتب عليه الحكم، ولا ضابط له في الشرع، ولا في اللغة، كإحياء الموات، والحرز في السرقة، والأكل من بيت الصديق، وما يُعدُّ قبضاً، وإيداعاً، وإعطاء، وهدية، وغصباً، والمعروف في المعاشرة، وانتفاع المستأجر بما جرت به العادة، وأمثال هذه كثيرة لا تنحصر".
"الأشباه والنظائر " (ص: 230):
"استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

05/ذی الحجہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب