021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد اور شوہر کے غیرشرعی کاموں پر خاموشی کا حکم
77386جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

(15): اگر کوئی شخص اس طرح کے غیر شرعی کاموں میں ملوث ہے، اس کی بیوی اور جوان،عاقل اوربالغ بچوں کو علم ہے کہ میرا خاوند اور والداس گناہ کا مرتکب ہورہا ہے اور بیوی بچے اسے سمجھاتے یا منع نہیں کرتے تو کیا روز قیامت اس بات پر وہ بھی جواب دہ ہوں گے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ہر شخص پر اپنی استطاعت کے مطابق برائی سے روکنا اور نیکی کا حکم کرنا لازم ہے،پھر برائی کو روکنے کے حدیث میں تین درجات منقول ہیں،پہلا درجہ یہ ہے کہ ہاتھ سے روکے،اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ زبان سے روکے،اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو آخری درجہ یہ ہے کہ کم از کم دل میں اسے برا سمجھے۔

لہذا مذکورہ صورت میں بیوی اور بچوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ حکمت اور نرمی کے ساتھ اپنے والد کو اس طریقے سےسمجھانے کی کوشش کریں کہ کسی قسم کے فتنہ وفساد کا اندیشہ نہ ہو،اگر ان کے متوجہ کرنے کے بعد بھی وہ اپنی ضد پر اڑے رہے تو پھر زبردستی کرنے یا ایسا طریقہ اختیار کرنے کے یہ مکلف نہیں ہوں گے جس کی وجہ سے فتنہ وفساد پیدا ہو۔

حوالہ جات
"صحيح مسلم" (1/ 69):
"عن طارق بن شهاب - وهذا حديث أبي بكر - قال: أول من بدأ بالخطبة يوم العيد قبل الصلاة مروان. فقام إليه رجل، فقال: الصلاة قبل الخطبة، فقال: قد ترك ما هنالك، فقال أبو سعيد: أما هذا فقد قضى ما عليه سمعت رسولﷲ صلىﷲ عليه وسلم يقول: «من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان»".
قال العلامة النووی رحمہ اللہ:" قال القاضي عياض رحمه ﷲ هذا الحديث أصل في صفة التغيير فحق المغير أن يغيره بكل وجه أمكنه زواله به قولا كان أو فعلا فيكسر آلات الباطل ويريق المسكر بنفسه أو يأمر من يفعله وينزع الغصوب ويردها إلى أصحابها بنفسه أو بأمره إذا أمكنه ويرفق في التغيير جهده بالجاهل وبذي العزة الظالم المخوف شره إذ ذلك أدعى إلى قبول قوله كما يستحب أن يكون متولي ذلك من أهل الصلاح والفضل لهذا المعنى ويغلظ على المتمادي في غيه والمسرف في بطالته إذا أمن أن يؤثر إغلاظه منكرا أشد مما غيره لكون جانبه محميا عن سطوة الظالم فإن غلب على ظنه أن تغييره بيده يسبب منكرا أشد منه من قتله أو قتل غيره بسبب كف يده واقتصر على القول باللسان والوعظ والتخويف فإن خاف أن يسبب قوله مثل ذلك غير بقلبه وكان في سعة وهذا هو المراد بالحديث إن شاء الله تعالى وإن وجد من يستعين به على ذلك استعان ما لم يؤد ذلك إلى إظهار سلاح وحرب وليرفع ذلك إلى من له الأمر إن كان المنكر من غيره أو يقتصر على تغييره بقلبه هذا هو فقه المسألة وصواب العمل فيها عند العلماء والمحققين خلافا لمن رأى الإنكار بالتصريح بكل حال وإن قتل ونيل منه كل أذى هذا آخر كلام القاضي رحمهﷲ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

05/ذی الحجہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب