021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سرکاری دستاویز کی شرعی حیثیت
77806دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیا عوامی اراضی دیہہ و شہر کے حکومت وقت کے سرکاری ریکارڈ کا شریعت میں بطور شہادت اعتبار ہے یا نہیں؟ مثلا سیٹلمنٹ جو حکومت بلوچستان نے 1968 میں محکمہ ریونیو کے ذریعے دیگر اضلاع کی طرح ضلع ژوب کی اراضی کو بھی ہر جریب سیٹلمنٹ کرکے ہرمالک کی آباد و غیر آباد اراضی کی فرد حقیت متعین کی۔

(3)1968 میں دو افراد کے نام اراضی آباد و غیر آباد بحصہ برابر جریب ہوئی،ایک حصہ دار فوت ہوا،اس کا حصہ اس کے ورثہ کے نام سرکاری ریکارڈ میں انتقال کیا گیا،پھر ورثہ اور دوسرے حصہ دار نے آباد و غیر آباد اراضی زرعی ترقیاتی بینک کو رہن رکھ کر اراضی بینک کے نام انتقال کرادی،کچھ بعد من سائل و برادران کو دونوں حصہ داروں نے یہ کہہ کر اراضی فروخت کی کہ ہماری اراضی بینک سے چھڑادو اور مبلٕغ 25000 نقد دو،زمین تمہاری ہوگی،من سائل نے بینک سے آباد و غیرآباد اراضی واگذار کرائی،ہر دو حصہ دار نے آباد وغیرآباد زمین سرکاری ریکارڈ میں حسب ضابطہ تحصیلدار کی عدالت میں چاروں حصہ داروں نے حاضر ہوکر بیع کی تصدیق کی،فریقین کی شناخت کے بعد تحصیلدار نے ضابطہ انتقال کا حکم دیا اور فریقین سے سرکاری رجسٹر پر انگشت ثبت کرائے،اب وہ لوگ اس غیرآباد قطعہ کی بیع کے منکر ہوگئے،کیا ان کا انکار شریعت میں قابلِ سماع ہے یا نہیں؟

(4) والد نے کسی کو بندوبستی اراضی فروخت کرکے سرکاری ریکارڈ میں اکیس سال پہلے مشتری کے نام انتقال کیا ہو،اب والد کی وفات کے بعد شریعت کی رو سے بیٹا غیر آباد حصہ کے نسبت حق ملکیت کا دعوی کرسکتا ہے یا نہیں؟

(5)تین بھائیوں نے اپنا حصہ فروخت کرکے تحصیلدار کے سامنے سرکار کے ضابطہ کے مطابق اراضی مشتری کے نام انتقال کردی،اب اکیس سال بعد منکر ہے کہ ہم نے یہ حصہ فروخت نہیں کیا،حالانکہ جملہ اراضی مشتری کے نام انتقال کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے سرکاری ریکارڈ میں انگوٹھے بھی لگائے ہیں،جس پر تحصیلدار کے دستخط اور سرکاری مہر ثبت ہے۔

(6)کیا محکم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کہے کہ مدعی اور مدعی علیہ اپنے اپنے مدعا تحریراً پیش نہ کریں،بلکہ صرف زبانی دعوی،جواب دعوی اور گواہ پیش کریں،میں اس پر فیصلہ کروں گا۔

(8)محکم کا فیصلہ سے پہلے کہنا کہ میں جریب وغیرہ سرکاری و پٹواری ریکارڈ نہیں مانتا،جریب شریعت سے بالاتر نہیں،کیونکہ الاسلام یعلی ولایعلی علیہ،اس لئے میں گواہی کے مطابق فیصلہ کروں گا،مستند تحریری شواہد پر عمل ضروری نہیں۔

(9)مدعا علیہ کے والدین چونکہ فوت ہوچکے ہیں،انہیں اپنی غیر آباد اراضی کی حدور اور رقبہ ابھی تک معلوم نہیں،صرف انکار کررہے ہیں،کیا ان کا انکار شرعا معتبر ہے؟

تنقیح:سائل نے وضاحت کی ہے کہ اس نے زمین اپنے نام منتقل کرانے کے بعد اس غیر آباد زمین کو پانی کے راستے کے طور پر بھی استعمال کیا اور اس میں ایک کمرہ بھی تعمیر کیا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی دعوے کو ثابت کرنے کے لیےاس کے دستاویزات ایک اہم ثبوت کی حیثیت رکھتے ہیں،شرعی لحاظ دستاویزات کے حجت ہونے یا نہ ہونے کے لحاظ سے دو قسمیں ہیں:

1۔ وہ دستاویزات جو حقائق پر مبنی ہوں اور تغیر و تبدل سے محفوظ ہوں اور دستاویزات کو پختہ کرنے کے تمام قانونی تقاضوں کو پورا کیا گیا ہو۔ ضرورت اور عرف کے پیشِ نظر فقہائے کرامؒ نے اس قسم کی دستاویزات کے حجت ہونے کی تصریح کی ہے، جبکہ وہ مطلوبہ معیار پر پورا اُترتے ہوں۔

2۔ وہ دستاویزات جو تغیر و تبدل  اور جعل سازی سے محفوظ نہ ہوں اور ان کو پختہ کرنے کے قانونی تقاضوں کو بھی نظر انداز کیا گیا ہو۔

پہلی قسم کی دستاویزات کا جب عدالت میں جانچ پڑتال کے بعد صحیح ہونا ثابت ہو جائے تو عدالت کو اس کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا، جبکہ دوسری قسم کی دستاویزات شرعی حجت نہیں بن سکتیں، عدالت اُن کو مدار بنا کر اُن پر فیصلہ نہیں دےسکتی۔

تاہم موجودہ دور چونکہ مکر و فریب کا دور ہے، سچے اور جھوٹے کاغذات کی تمییز مشکل ہوگئی ہے، لہٰذا ان دستاویزات پر اگر کسی معتبروجوہ کی بناء پر فریق کی جانب سے شک و شبہ کا اظہار کیا جائے تو بلا تحقیق ان کو ثبوت قرار دے کر فیصلہ کرنا شرعاً درست نہیں، بلکہ ان کے شرعی حجت ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے بارے میں تحقیق کی جائے اور اُن پر باقاعدہ گواہ بھی موجود ہوں۔

لہذا اگر آپ کے پاس زمین کے اس حصے کی ملکیت کی ایسے دستاویز موجود ہیں،جو قانون کے مطابق ہیں اور ان میں کسی قسم کی جعل سازی کا شبہ نہیں ہے  تو یہ دستاویزات بطورِ ثبوت معتبر ہوں گے،لہذا جسے آپ نے فیصل مقرر کیا ہے اس کا ان سے صرفِ نظر کرنا  اور ان کا اعتبار نہ کرنا درست نہیں ہوگا،کیونکہ ان دستاویزات میں فریق مخالف کے انگوٹھوں کے نشانات اور دستخط ان کی جانب سابقہ ہونے والی بیع کے اقرار پر دلالت کرتے ہیں اور شریعت کا اصول ہے کہ المرء یؤخذ باقرارہ کہ آدمی کا اقرار اس کے خلاف دلیل ہے۔

البتہ اگر فریق مخالف ان دستاویزات کے حوالے سے کسی قسم کے شک وشبہہ کا دعوی کرے تو پھر اس کے شک کو دور کرنے کے لئے ان دستاویزات کی قانونی طریقوں سے جانچ پڑتال لازم ہوگی اور دستاویزات اصلی اور قانون کے مطابق ہونے کی صورت میں فریق مخالف کا اس سے انکار معتبر نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (5/ 436):
"قلت: والعادة اليوم في تصديرها بالعنوان أنه يقال فيها سبب تحريره هو أنه ترتب في ذمة فلان الفلاني إلخ وكذا الوصول الذي يقال فيه وصل إلينا من يد فلان الفلاني كذا ومثله ما يكتبه الرجل في دفتره مثل قوله: علم بيان الذي في ذمتنا لفلان الفلاني، فهذا كله مصدر معنون جرت العادة بتصديره بذلك، وهو مفاد كلام قارئ الهداية المذكور، فمقتضاه أن هذا كله إذا اعترف بأنه خطه يلزمه وإن لم يكن مصدرا معنونا لا يلزمه إذا أنكر المال، وإن اعترف بكونه كتبه بخطه إلا إذا كان بياعا أو صرافا أو سمسارا لما في الخانية: وصك الصراف والسمسار حجة عرفا اهـ فشمل ما إذا لم يكن مصدرا معنونا وهو صريح ما مر عن المجتبى وما إذا لم يعترف بأنه خطه كما هو صريح ما مر عن الخزانة. ثم إن قول المجتبى، وكذا ما يكتب الناس فيما بينهم إلخ يفيد عدم الاقتصار على الصراف والسمسار والبياع، بل مثله كل ما جرت العادة به".
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (4/ 622):
" والحاصل أن سجلات المحاكم المحفوظة على هذا الوجه والبريئة من التزوير والتصنيع معمول بها عند المحاكم لدى الاقتضاء كما هو مذكور في المادة (1738)".
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (4/ 482):
"[ (المادة 1738) يعمل بسجلات المحاكم إذا كانت قد ضبطت سالمة من الحيلة والفساد]
المادة (1738) - (يعمل أيضا بسجلات المحاكم إذا كانت قد ضبطت سالمة من الحيلة والفساد على الوجه الذي يذكر في كتاب القضاء) .
يعمل أيضا بسجلات المحاكم الممسوكة بصورة سالمة من الحيلة والفساد، وبتعبير آخر أي من التزوير والتصنيع كما سيبين ذلك في المادة (1814) من كتاب القضاء.
أما إذا لم تكن سجلات المحاكم بريئة من التزوير والتصنيع فيطلب شهود لإثبات مضمونها ويشهد الشهود على مضمون الإعلام".
"الأشباه والنظائر لابن نجيم" (ص: 292):
"يصح البيع بها، قال في الهداية: والكتاب كالخطاب، وكذا الإرسال حتى اعتبروا مجلس بلوغ الكتاب وأداء الرسالة (انتهى) .
وفي فتح القدير: وصورة الكتاب أن يكتب؛ أما بعد فقد بعت عبدي منك بكذا؛ فلما بلغه وفهم ما فيه قال: قبلت في المجلس".
"الفتاوى الهندية" (4/ 63):
"متى ثبت عند الحاكم تعارض القولين المتضادين المتناقضين من المدعي في الدعوى يمنع استماع الدعوى كذا في محيط السرخسي.
التناقض كما يمنع صحة الدعوى لنفسه يمنع صحة الدعوى لغيره فمن أقر بعين لغيره فكما لا يملك أن يدعيه لنفسه لا يملك أن يدعيه لغيره بوصاية أو وكالة وهذا إذا وجد منه ما يكون إقرارا بالملك له".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

21/ٍصفرٍ1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب