021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ماموں نے والدہ کا(میراث کا)حصہ نہیں دیا،والدہ نےوفات سےپہلےبیٹے کوحصہ لینےکاکہا
77516میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال:بخدمت جناب مفتی صاحب دامت برکاتہم  العالیہ !السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میں غلام علی آپ لوگوں کی خدمت میں ایک مسئلہ پیش کررہاہوں،مسئلہ یہ ہےکہ میرےنانا کاانتقال ہوگیاہے،ان کی چار بیٹیاں اورایک بیٹا تھا ،میرےنانا کی میراث میں جائیداد رہ گئی،تومیری والدہ محترمہ نے میرےماموں سےاپناحق مانگا،لیکن ماموں نےحق نہیں دیا،یہ کہہ کر ٹالتےرہےکہ آج دونگا، کل دونگا،اسی دوران میرےماموں انتقال کرگئے،اس کےبعدمیری والدہ نےمیرےماموں زاد بیٹوں سےمانگا ،لیکن انہوں نے بھی نہیں دیا،پھرمیری والدہ بھی انتقال کرگئی ،انہوں نے مجھے وصیت کی کہ آپ میراحق لےلیں،توکیا اب میں یہ حق لےسکتاہوں یانہیں؟

برائےمہربانی آپ حضرات راہنمائی فرمائیں۔اگرخدانخواستہ میراحق بنتاہےاوروہ نہ دیں تواگرمیں کچھ زبردستی کرلوں اورکچھ نقصان ہوجائےتومیں گناہگارتونہیں ہونگا؟

تنقیح:مستفتی نےوضاحت کی ہےکہ ماموں کوزندگی میں کئی دفعہ والدہ کاحصہ دینےکاکہا،لیکن وہ ٹالتےرہے،اورماموں نےاسی جائیدادسےگھر،دکان،باغ وغیرہ بناکراس پرقبضہ کیاہواتھا۔

والدہ نےیہاں تک کہاکہ جائیدادسےجتنانفع کمایاہےمیں اس کامطالبہ نہیں کرتی ،بس اصل جائیدادمیں میراث کاجتناحصہ بنتاہےوہ مجھے دیدیاجائے۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرآپ کی والدہ نے اپناحق بھائیوں کومعاف نہیں کیاتوزندگی بھرماموں کےذمہ  لازم تھاکہ وہ اپنی زندگی میں آپ کی والدہ کا حصہ   دیدیتے،زندگی میں نہیں دیاتوشرعا گناہگارہیں۔

تنقیح کےمطابق چونکہ زندگی میں ماموں نےمکمل جائیدادپرقبضہ کیاتھااورمیراث کی تقسیم کےبغیر گھر،دکان  اورباغات وغیرہ بنالیےتھے،اس لیےاس ناجائزحق اورغصب کی وجہ سےآپ کی والدہ کاحصہ آپ کےماموں کےذمہ قرض بن گیا،جس کی ادائیگی ماموں کےورثہ(ماموں زادبھائیوں)پر(ماموں کی)میراث کی تقسیم سےپہلےبطورقرض ضروری تھی،بعدمیں آپ کی والدہ نے آپ کو اس قرض کےوصول کرنےکی وصیت کی  تھی ،لہذاماموں زاد بھائیوں سےآپ مذکورہ حق کامطالبہ کرسکتےہیں۔

اگرماموں زادبھائی آپ کی والدہ کا حصہ نہیں دیتےتوآپ کےماموں کےساتھ ساتھ آپ کےماموں زاد بھائی بھی شرعا گناہگارہونگے۔

واضح رہےکہ بہنوں کومیراث سے محروم کرنابہت بڑاگناہ ہے،قرآن وحدیث میں اس پربہت سخت وعیدیں آئی ہیں،قرآن مجید میں ہے کہ جواللہ تعالی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گااورمیراث کوشرعی طریقے کے مطابق تقسیم نہیں کرے گاتواللہ تعالی اس کوجہنم میں داخل فرمائیں گےاوروہ اس میں ہمیشہ رہےگا اوراس کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔

حوالہ جات
" سورۃ النساء "  :تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (13) وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (14)۔
" تفسير ابن كثير " 2 / 232:أي: هذه الفرائض والمقادير التي جعلها الله للورثة بحسب قربهم من الميت واحتياجهم إليه وفقدهم له عند عدمه، هي حدود الله فلا تعتدوها ولا تجاوزوها؛ ولهذا قال: { ومن يطع الله ورسوله } أي: فيها، فلم يزد بعض الورثة ولم  ينقص بعضا بحيلة ووسيلة، بل تركهم على حكم الله وفريضته وقسمته { يدخله جنات تجري من تحتها الأنهار خالدين فيها وذلك الفوز العظيم ومن يعص الله ورسوله ويتعد حدوده يدخله نارا خالدا فيها وله عذاب مهين } أي، لكونه غيَّر ما حكم الله به وضاد الله في حكمه. وهذا إنما يصدر عن  عدم الرضا بما قسم الله وحكم به، ولهذا يجازيه بالإهانة في العذاب الأليم المقيم۔
"مشكاة المصابيح " 2 /  197: وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة " . رواه ابن ماجه۔
" سورۃ النساء " الآية 29 :
یاأیھاالذین آمنوالاتأکلواموالکم بینکم بالباطل الاأن تکون تجارۃ عن تراضی منکم ۔
"سورۃ البقرۃ الآية"  188 :
{ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل وتدلوا بها إلى الحكام لتأكلوا فريقا من أموال الناس بالأثم وأنتم تعلمون۔
"الجامع لأحكام القرآن للقرطبي "2 /  338:الثانیۃ:الخطاب بهذه الآية يتضمن جميع أمة محمد صلى اللّه عليه وسلم ، والمعنى : لا يأكل بعضكم مال بعض بغير حق. فيدخل في هذا : القمار والخداع والغصوب وجحد الحقوق ، وما لا تطيب به نفس مالكه۔۔۔
الثالثة : من أخذ مال غيره لا على وجه إذن الشرع فقد أكله بالباطل۔
"صحيح مسلم " 8 /  10:
عن أبى هريرة قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بحسب امرئ من الشر أن يحقر أخاه المسلم ،كل المسلم على المسلم حرام دمه وماله وعرضه۔
" البيهقي  فی شعب الایمان " 4 /  387:
عن أبي حرة الرقاشي عن عمه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال :  لا يحل مال امرىء مسلم إلا بطيب نفس منه۔
" صحيح البخاري "3 / 130:حدثنا أبو معمر حدثنا عبد الوارث حدثنا حسين عن يحيى بن أبي كثير قال حدثني محمد بن إبراهيم أن أبا سلمة حدثه أنه كانت بينه وبين أناس خصومة فذكر لعائشة رضي الله عنها فقالت يا أبا سلمة اجتنب الأرض فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال من ظلم قيد شبر من الأرض طوقه من سبع أرضين۔
"الفتاوى الهندية" 39 /  343:وأما حكمه فالإثم والمغرم عند العلم وإن كان بدون العلم بأن ظن أن المأخوذ ماله أو اشترى عينا ثم ظهر استحقاقه فالمغرم ويجب على الغاصب رد عينه على المالك وإن عجز عن رد عينه بهلاكه في يده بفعله أو بغير فعله فعليه مثله إن كان مثليا كالمكيل والموزون فإن لم يقدر على مثله بالانقطاع عن أيدي الناس فعليه قيمته يوم الخصومة عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى وقال أبو يوسف رحمه الله تعالى : يوم الغصب وقال محمد رحمه الله تعالى : يوم الانقطاع كذا في الكافي

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

/11محرم الحرام 1444 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب