021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یتیم بچوں کا نفقہ کس کے ذمے لازم ہے؟
77502نان نفقہ کے مسائلنان نفقہ کے متفرق مسائل

سوال

سوال یہ ہے کہ ان بچوں کے اخراجات شرعی لحاظ سے کس کے ذمے لازم ہیں،ماں کے ذمے یا دادا کے ذمے؟ اور بچوں کے ماں کے پاس ہونے کی صورت میں اس حکم پر کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والد کے ورثہ کے ذمے لازم ہے کہ مرحوم کے مال میں سے بیوہ اور اس کی یتیم بچی کا جتنا حصہ بنتا ہے وہ فوری طور پران کے حوالے کردیں اور پھر مرحوم والد کی وراثت میں سے ان بچوں کے حصے میں جو مال آئے اسی میں سے اعتدال کے ساتھ ان پر خرچ کیا جائے گا،جب وہ ختم ہوجائے تو پھر ان بچوں کا خرچہ اس کی والدہ اوردادا پر اثلاثاً لازم ہے،یعنی ایک حصہ والدہ پر،جبکہ دو حصے دادا پر لازم ہے،چاہے بچے والدہ کے پاس رہیں یا دادا کے پاس،بشرطیکہ والدہ کےپاس بچی پر خرچ کرنے کے لیے اتنا مال ہو،ورنہ سارا خرچہ اس کے داداپر لازم ہے۔

حوالہ جات
"البحر الرائق " (4/ 231):
"وفي الخانية صغير مات أبوه وله أم وجد أب الأب كانت النفقة عليهما أثلاثا الثلث على الأم والثلثان على جد الأب اهـ. وبه علم أن الجد ليس كالأب فيها".
"رد المحتار" (3/ 614):
"قلت: اعلم أنه إذا مات الأب فالنفقة على الأم والجد على قدر ميراثهما أثلاثا في ظاهر الرواية".
"الفتاوى الهندية "(1/ 566):
 "ولو كان له أم وجد فإن نفقته عليهما أثلاثا على قدر مواريثهما، الثلث على الأم والثلثان على الجد".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

11/محرم1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب