021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زمین کے محض نام پر ہونے کی وجہ سے خریداری کا حق نہیں ملتا
77652شفعہ کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ایک آدمی فوت ہوا جس کے ورثہ میں ایک بیٹی اور پانچ بیٹے ہیں،ایک بیٹی اور تین بیٹے پاکستان میں ہیں،جبکہ دو بیٹے برما میں ہیں،وہ وہی کے پیدائشی ہیں اور وہی رہائش پذیر ہیں،ان کے پاس پاکستانی شہریت نہیں،مرحوم کی وفات کے بعد پاکستان میں ان کے ملکیتی رقبہ کی بطور وراثت تقسیم ہوئی،شرعی طور پر پانچ بھائیوں اور ایک بہن کو جو حصہ ملنا تھا وہ طے ہوگیا،لیکن پاکستان کے قانون کے مطابق جو  دو بھائی برما میں ہیں ان کا حصہ ان کے نام پر منتقل نہیں ہوسکتا تھا،چنانچہ کاغذات میں ان کا حصہ بھی تین بھائیوں اور بہن کے نام منتقل کردیا گیا اس خیال سے کہ وہ یہ رقبہ فروخت کرکے اس کی رقم برما میں موجود دونوں بھائیوں کو بھیج دیں گے،اس طرح برما کے دونوں بھائیوں کاکچھ حصہ بہن کے نام منتقل ہوگیا جس کا رقبہ بیس کنال ہے اور باقی رقبہ بمطابق حصہ کے تین بھائیوں کے نام ہوگیا۔

کچھ عرصہ بعد پاکستان میں موجود ایک بھائی نے برما والے دونوں بھائیوں سے ٹیلی فون پر بات کرکے ان کے حصے کی ساری زمین جو بہن اور بھائیوں کے نام پر تھی خریدلی،اس کے بعد اس نے بہن سے کہا کہ میں بھائیوں سے زمین خریدلی ہے،اس لئے جوبیس کنال زمین آپ کے پاس ہے وہ میرے نام انتقال کرادیں،بہن نےاس بیس کنال زمین کے انتقال سے انکار کردیا اور کہا کہ چونکہ یہ زمین میرے نام تھی،میرا پہلے بھی اس زمین میں حصہ موجود ہے،لہذا یہ بیس کنال جو میرے نام پر ہے میں خود اسے خریدوں گی،زمین خریدتے وقت نہ آپ نے مجھے بتایا اور نہ میری رضامندی اس میں شامل ہے،میں وہ رقم تو دے سکتی ہوں جو اس زمین کی ادا کی گئی ہے،لیکن زمین نہیں دوں گی۔

اب آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا بہن کا یہ دعوی درست ہے کہ چونکہ یہ بیس کنال زمین اس کے نام پر ہے لہذا وہ اسے خریدنے کی زیادہ حقدار ہے یا نہیں؟

تنقیح:سائل سے فون پر درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں:

1۔برما میں موجود بھائیوں کی زمین تھوڑی تھوڑی یہاں موجود سب بہن بھائیوں کے نام پر منتقل کی گئی اور ان بھائیوں کی طرف سے یہ اسی وقت سے برائے فروخت تھی،کیونکہ وہ یہاں نہیں آسکتے تھے،ان کا مطالبہ تھا کہ زمین بیچ کر ہمیں اس کی قیمت بھجوادی جائے،لیکن اس وقت بہن بھائیوں کے پاس خریدنے کے لئے پیسے نہیں تھے اور باہر سے کوئی مناسب قیمت میں لینے والا مل نہیں رہا تھا،چنانچہ بارہ سال تک یہ زمین اسی طرح رہی،پھر اس بھائی کے پاس کچھ رقم کا انتظام ہوا تو اس نے یہ زمین خرید لی اور اس پر کچھ کام بھی کروایا،بہن کو اس معاملے کا پتہ بھی چلا تھا،لیکن اس نے خریدنے کے حوالے سےکوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا،اب خریدنے کے چار سال بعد جب بھائی نے بہن سے زمین اپنے نام پر منتقل کروانے کا مطالبہ کیا تو وہ خریدنے کی بات کررہی ہے۔

2۔تقسیم کے وقت ہر بہن بھائی کا حصہ الگ کردیا گیا تھا،یہ زمین جسے بھائی نے خریدا ہے،اس کے ساتھ اس بہن اور خریدنے والےبھائی دونوں کی زمین متصل ہے،البتہ بھائی کا حصہ زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کی زمین کا زیادہ حصہ اس کے ساتھ متصل ہے بہ نسبت بہن کی زمین کے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی مجبوری کے تحت زمین کسی کے نام کروانے سے زمین اس شخص کی ملکیت نہیں بنتی،بلکہ اس زمین سے متعلق قانونی کاروائی اور چارہ جوئی کی حد تک یہ شخص مالک کی جانب سے وکیل بن جاتا ہے،اس لئے بہن کا محض اس بنیاد پر کہ یہ زمین عارضی طور اس کے نام منتقل کی گئی تھی یہ دعوی کرنا کہ وہ اس زمین کو خریدنے کی زیادہ حقدار ہے،درست نہیں۔

البتہ اس زمین کے بہن کے حصے میں آنے والی زمین کے ساتھ متصل ہونے کی وجہ سے بہن کو شفعہ کا حق حاصل تھا،لیکن چونکہ زمین کافی عرصہ سے برائے فروخت تھی،نہ اس وقت بہن نے اسے خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا اور نہ اس وقت بہن نے شفعہ کا دعوی کیا جب بھائی نے یہ زمین خریدی اور اس میں کام بھی کروایا،بلکہ اب چار سال بعد وہ خریدنے کی بات کررہی ہے،اس لئے اسے اب شفعہ کی بناء پر بھی اس زمین کو خریدنے کا حق نہیں رہا،لہذا اس کے ذمے لازم ہے کہ فوری طور پر یہ زمین بھائی کے نام منتقل کروادے۔

حوالہ جات
"فقہ البیوع" (1/ 226):
"وماذکرنا من حکم التلجئة یقاربہ ما یسمی فی القوانین الوضعیة عقودا صوریة...
وھی ان تشتری ارض باسم غیر المشتری الحقیقی وتسجل الارض باسمہ فی الجھات الرسمیة وذلک لاغراض ضریبیة او لاغراض اخری ولکن المشتری الحقیقی ھو الذی دفع ثمنہ.....
وکذلک القانون الوضعی فی بلادنا یعترف بان المشتری الحقیقی ھو الذی یدفع الثمن اما الذی سجل العقد باسمہ صورة،فانہ یعتبر امینا للمالک الحقیقی ووکیلا لہ لاتخاذ الاجراءات القانونیة".
"الهداية " (4/ 309):
قال: "وإذا اجتمع الشفعاء فالشفعة بينهم على عدد رءوسهم ولا يعتبر اختلاف الأملاك".
"الدر المختار " (6/ 224):
"(ويطلبها الشفيع في مجلس علمه) من مشتر أو رسوله أو عدل أو عدد (بالبيع) وإن امتد المجلس كالمخيرة هو الأصح درر وعليه المتون، خلافا لما في جواهر الفتاوى أنه على الفور وعليه الفتوى  (بلفظ يفهم طلبها كطلبت الشفعة ونحوه) كأنا طالبها أو أطلبها (وهو) يسمى (طلب المواثبة) أي المبادرة، والإشهاد فيه ليس بلازم بل لمخافة الجحود (ثم) يشهد (على البائع لو) العقار (في يده أو على المشتري وإن) لم يكن ذا يد لأنه مالك أو عند العقار (فيقول اشترى فلان هذه الدار وأنا شفيعها وقد كنت طلبت الشفعة وأطلبها الآن فاشهدوا عليه، وهو طلب إشهاد) ويسمى طلب التقرير (وهذا) الطلب لا بد منه،حتى لو تمكن ولو بكتاب أو رسول ولم يشهد بطلت شفعته".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

29/محرم1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب