021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہنوں کے حصے کو بلااجازت بیچ کر حاصل کئے گئے نفع میں تخارج کا حکم
77689میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے والد صاحب وفات پاگئے تو انہوں نے میراث میں ایک زمین چھوڑی جسے ہم نے تقسیم کئے بغیر کچھ عرصہ بعد تیس ہزار روپے میں فروخت کی اور اس رقم کے بدلے ہم بھائیوں نے کراچی میں ایک ہوٹل کرایہ پر لیا،کچھ عرصہ بعد ہوٹل کو چھوڑ کر اس رقم سے ایک دکان خریدلی،اب اس دکان کی مالیت کروڑوں میں ہے،اس دکان کو ہم تین بھائیوں نے آپس میں تقسیم کیا اور بہنوں کو حصہ نہیں دیا،اب میں چاہتا ہوں کہ بہن کے ورثا کو کچھ رقم پر راضی کرکے ان کا حصہ خریدلوں،اس تمہید کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1۔میراث میں بہنوں کا جو حصہ بنتا ہے شاید وہ زیادہ ہو،لیکن کیا بہن کے ورثہ کی رضامندی سے انہیں کچھ سامان یا کچھ نقدی دے کر انہیں میراث سے فارغ کرنا صحیح ہے؟

2۔اگر بہن کے ورثہ راضی ہوں تو دولاکھ روپے دے کر ان سے یہ اقرار لینا کہ آپ کو یہ دولاکھ روپے آپ کی والدہ کے میراث کے حصے کے بدلے قبول ہے،جس کے نتیجے میں وہ قبول کرلیں تو کیا ایسا کرنے سے میں میراث سے بری الذمہ ہوجاؤں گا؟

تنقیح:وراثت میں آنے والی زمین کو بھائیوں نےچار بہنوں کی اجازت کے بغیر فروخت کیا تھا،جن کا اب انتقال ہوچکا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ چونکہ وراثت میں آنے والی زمین کو بھائیوں نے بہنوں کی اجازت کے بغیر فروخت کیا تھا،اس لئے بھائیوں کے حصے کے بقدر زمین میں تو خرید و فروخت درست ہوگئی تھی،جبکہ بہنوں کے حصے میں آنے والی زمین پر غصب کے احکام جاری ہوں گے۔

مغصوبہ چیز کی بیع اصل مالک کی اجازت پر موقوف رہتی ہے،اگر وہ رضامندی سے اجازت دے دے تو ٹھیک،ورنہ تو بیع کو فسخ کرنا لازم ہوتا ہے،لیکن چونکہ مذکورہ معاملےکو کافی عرصہ گزرچکا ہے،جس کی وجہ سے اب اسے ختم کرنا ممکن نہیں رہا ہے،اس لئے بھائیوں کے ذمے بہنوں کے حصے کے بدلے میں آنے والی قیمت کا ضمان لازم ہے  اور یہ قیمت اس دن کی معتبر ہوگی جس دن بھائیوں نے وراثتی زمین کو بیچا تھا۔

نیز اس زمین کو بیچ کر بھائیوں نے اب تک جو نفع حاصل کیا ہے،اس میں سے بہنوں کے حصے سے حاصل ہونے والا نفع بھی ان کے لئے حلال نہیں ہے،لہذا محض دو لاکھ روپے دینے سے آپ بری الذمہ نہیں ہوسکتے،بلکہ آپ کے ذمے لازم ہے کہ وراثتی زمین میں بہنوں کی حصے کی جتنی قیمت بنتی ہے وہ اور اس سے حاصل ہونے والے مکمل نفع کو بہنوں کے ورثہ کے حوالے کردیں، اس کے بعد اگروہ لوگ اس میں سے کچھ رقم رکھ کر بقیہ رقم اپنی دلی رضامندی سے آپ کو دوبارہ واپس کرنا چاہیں تو واپس لینے میں کوئی حرج نہیں۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" (3/ 130):
"ولو كان المبيع دارا أو أرضا بين رجلين مشاعا غير مقسوم فباع أحدهما قبل القسمة بيتا منها بعينه أو قطعة بعينها فالبيع لا يجوز لا في نصيبه ولا في نصيب صاحبه بخلاف ما إذا باع جميع نصيبه من الدار والأرض فالبيع جائز كذا في شرح الطحاوي".
"درر الحكام شرح غرر الأحكام" (2/ 177):
"(وبيع الغاصب) فإنه موقوف على إجازة المالك إن أقر به الغاصب ثم البيع، وإن جحد وللمغصوب منه بينة فكذلك، وإن لم تكن ولم يسلمه حتى هلك ينتقض البيع (وحكمه) أي حكم البيع الموقوف (أنه إنما يقبل الإجازة إذا كان البائع والمشتري والمبيع قائما) المراد بكون المبيع قائما أن لا يكون متغيرا بحيث يعد شيئا آخر فإنه لو باع ثوب غيره بغير أمره فصبغه المشتري فأجاز رب الثوب البيع جاز ولو قطعه وخاطه ثم أجاز البيع لا يجوز لأنه صار شيئا آخر (كذا الثمن لو) كان (عرضا) أي كما يشترط قيام المبيع يشترط قيام الثمن أيضا إذا كان عرضا (وصاحب المتاع أيضا) أي كما يشترط قيام المبيع والثمن المذكورين يشترط قيام صاحب المتاع المبيع حتى لو باع متاع غيره فمات صاحب المتاع قبل أن يجيز البيع فأجاز وارثه لا يجوز".
"العناية شرح الهداية "(9/ 330):
"الغاصب إذا تصرف في المغصوب أو المودع في الوديعة وربح فيه لا يطيب له الربح عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله، خلافا لأبي يوسف - رحمه الله - وقد مر في الدلائل. وجوابهما في الوديعة أظهر لما ذكرنا أنه لا يستند الملك إلى ما قبل التصرف لانعدام سبب الضمان، فكان التصرف في غير ملكه مطلقا فيكون الربح خبيثا".
"مجمع الضمانات "(ص: 130):
"ولو استعمل المغصوب بأن كان عبدا فأجره فالأجرة له، ولا تطيب له فيتصدق بها.
وكذا لو ربح بدراهم الغصب كان الربح له، ويتصدق به، ولو دفع الغلة إلى المالك حل للمالك تناولها كما في الهداية".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

04/صفر1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب