021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین  بہن تین بھائیوں میں   وراثت کی تقسیم  ،جبکہ سابقہ تقسیم پرشریعت کےمطابق عمل نہیں کیاگیا
77734میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال:ایک زمین ٹوٹل ایک کروڑ بیس لاکھ روپےمیں فروخت کی گئی ہے،اب اس رقم کوایک بہن اوردوبھائیوں میں یاتین بہنوں اوردوبھائیوں  میں  بطوروراثت کس طرح تقسیم کریں گے؟

تنقیح:ٹوٹل ورثہ تین بہنیں تین بھائی  ہیں:سائلہ نےوضاحت کی ہےکہ اصل میں پہلی دفعہ میراث تقسیم ہوئی تھی،تقریبادس سال پہلےعلاقےکےبڑےحضرات نےوراثت کےگھرکوحصوں کےاعتبارسےتقسیم کردیاتھا،اس وقت اس تقسیم پر سب ورثہ راضی تھے،فرنٹ کی طرف کاحصہ بڑےبھائی کودیاگیاکہ دوبہنیں اس کےساتھ ہونگی ،اورباقی دوبھائی اورایک بہن میں تقسیم کیاگیا۔

چونکہ اس وقت بڑےبھائی نے دوبہنوں کوالگ حصہ نہیں دیا،جس کی وجہ سےمیراث کی تقسیم مکمل نہیں ہوئی، اس لیےبہنوں کی طرف سےدوبارہ میراث کی تقسیم کامطالبہ کیاگیاہےتومذکورہ بالاقیمت ورثہ میں کس طرح تقسیم ہوگی ؟چونکہ بڑےبھائی نےبہنوں کاحصہ نہیں دیاتھا،اس لیےسوال میں بڑےبھائی کےحصےکانہیں پوچھاگیا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں چونکہ تمام ورثۃ کی رضامندی سےزمین وراثت میں تقسیم کی گئی  تھی،اس لیےسابقہ تقسیم کےمطابق بڑےبھائی پرلازم ہوگاکہ وہ دوبہنوں کو ان کاحصہ دے،اگروہ حصہ دینےپرتیارہوجاتاہےتوسابقہ تقسیم ہی معتبرہوگی،اس صورت میں میراث کی دوبارہ تقسیم جائزنہیں ہوگی،کیونکہ ایک دفعہ تمام ورثہ کی رضامندی سےمیراث تقسیم ہوجائےتوجب تک تقسیم میں غبن فاحش ظاہر نہ ہودوبارہ تقسیم جائزنہیں ہوتی ۔

لیکن اگرسمجھانےکےباوجودبھی بڑابھائی بہنوں کاحصہ دینےکےلیےتیارنہیں اورسائلہ کی وضاحت کےمطابق باقی بھائی بھی اس طرح توجہ نہیں دےرہے،جس کی وجہ سےبہنوں کےحصےپرناجائزقبضہ کیاگیاہےجو شرعاناجائزاورحرام ہےایسی صورت میں بہنوں کےمطالبےپرسابقہ تقسیم کوکالعدم قراردےکر دوبارہ میراث کی تقسیم کی جائےگی،اب چونکہ زمین فروخت کردی گئی ہےتوبھائیوں پرلازم ہوگاکہ اس کی رقم کو شرعی طریقےکےمطابق  بہنوں پربھی تقسیم کریں۔

تنقیح کےمطابق موجودورثہ میں زمین کی مذکورہ بالا قیمت ایک کروڑ بیس لاکھ اس طرح تقسیم کی جائےگی کہ  بھائیوں کوبہنوں کےمقابلےمیں دوگنا حصہ ملےگا۔یعنی ہربھائی کو 2666666.666روپےملیں گےاور ہربہن کو 1333333.333روپےملیں گے۔

فیصدی اعتبارسےکل میراث کا% 22.2222فیصدہربھائی کوملےگااور%11.11111حصہ ہربہن کوملےگا۔

واضح رہےکہ اگربڑےبھائی نےسابقہ تقسیم کےبعدسےاب تک اس زمین سےفائدہ اٹھایاہوتو چونکہ اس وقت تمام ورثہ کی رضامندی سےیہ جگہ بڑےبھائی کودی گئی تھی تواس کافائدہ اٹھاناشرعااس کےلیےجائزتھا،یہ الگ بات ہےکہ اس نےاپنی دوبہنوں کو حصہ نہیں دیاتواس کاگناہ اس پر ہوگا،اس پرلازم ہےکہ توبہ واستغفار کرے،بھائی پر دیانتالازم ہوگاکہ زمین میں بہنوں کےحصےسےجتناعرصہ فائدہ اٹھایاہے،اندازہ لگاکراتنےعرصےکی اجرت دونوں بہنوں  کےحوالےکرے۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع"14 / 495: ( فصل ) : وأما صفات القسمة فأنواع : منها أن تكون عادلة غير جائرة وهي أن تقع تعديلا للأنصباء من غير زيادة على القدر المستحق من النصيب ولا نقصان عنه ؛ لأن القسمة إفراز بعض الأنصباء ، ومبادلة البعض ، ومبنى المبادلات على المراضاة ، فإذا وقعت جائرة ؛ لم يوجد التراضي ، ولا إفراز نصيبه بكماله ؛ لبقاء الشركة في البعض فلم تجز وتعاد۔۔۔وعلى هذا إذا ظهر الغلط في القسمة المبادلة بالبينة أو بالإقرار تستأنف ؛ لأنه ظهر أنه لم يستوف حقه ، فظهر أن معنى القسمة لم يتحقق بكماله
"الدر المختار للحصفكي" 6 / 574:(ولو ظهر غبن فاحش) لا يدخل تحت التقويم (في القسمة) فإن كانت بقضاء (بطلت) اتفاقا لان تصرف القاضي مقيد بالعدل ولم يوجد (ولو وقعت بالتراضي) تبطل أيضا (في الاصح) لان شرط جوازها المعادلة ولم توجد فوجب نقضهاخلافا لتصحيح كالخلاصة۔
"رد المحتار " 26 /,40 36:( ولو اقتسما دارا وأصاب كلا طائفة فادعى أحدهما بيتا في يد الآخر أنه من نصيبه وأنكر الآخر فعليه البينة ) لأنه مدع۔۔۔۔۔۔۔ ( وتسمع دعواه ذلك ) أي ما ذكر من الغبن الفاحش ( إن لم يقر بالاستيفاء ، وإن أقر به لا ) تسمع دعوى الغلط والغبن للتناقض ، إلا إذا ادعى الغصب فتسمع دعواه ، وتمامه في الخانية۔

محمدبن عبدالرحیم

دارلافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

10/صفر 1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب