021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک خاتون کی گواہی سے رضاعت کا ثبوت
77741رضاعت کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ مذکورہ کے بارے میں کہ ایک لڑکا اپنے ماموں زاد سے نکاح کرنا چاہتا ہے جب یہ بات ان دونون کے والدین کو پہنچی تو لڑکے کی والدہ نے دعوی کیا کہ میں نے اس لڑکی کو دودھ پلایا ہے جب ان سے گواہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے صرف ایک عورت کا تذکرہ کیا جو فوت ہوچکی ہے ۔زندہ لوگون میں سے کوئی گواہ نہیں  اور یہ بالکل واضح ہے کہ دونوں کے والدین  ایک دوسرے سے ناراض ہیں اور لڑکے کی والدہ نہیں چاہتی کہ وہ اپنی بھتیجی کو بیاہ کر لائے۔ لڑکی کی ماں سے گاؤں کے عالم نے قسم دے کر پوچھا کہ کای آپ کی بیٹی کو اس نے دودھ پلایا ہے یا نہیں؟تو اس(لڑکی کی امی)نے قسم کھا کر کہا کہ وہ عورت(لڑکے کی ماں)جھوٹ بولتی ہے،میری بیٹی کو مدت رضاعت میں کسی نے دودھ نہیں پلایا۔آیا ان دونون کا نکاح جائز ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعی نقطہ نظر سے رضاعت کے ثبوت کے لئے دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ضروری ہے، ایک عورت کی گواہی معتبر نہیں،لہذا اگردودھ پلانے والی( لڑکے کی ماں) کے پاس گواہ  موجود نہ ہوں تو ایسی صورت میں قضاءًٍ ان کی بات  کا اعتبار نہیں،اور نکاح جائز ہے،نیزاگر لڑکے اور لڑکی کواس خاتون کی بات درست ہونے کا یقین یا غالب گمان نہیں تو دیانتہً بھی نکاح جائز ہے،البتہ اگر خاتون کے اس دعوی سے جھوٹ کا یقین یا گمان غالب نہ بن رہا ہو،بلکہ شک پیداہوکہ شاید وہ سچ بول رہی ہو، تو  احتیاطاً اس رشتہ سے احتراز بہتر ہے۔

حوالہ جات
وفی خلاصة الفتاوى (2/11):
ولا يجوز شهادة امرأة واحدة على الرضاع أجنبية كانت أو أم أحد الزوجين، فإن وقع فى قلبه صدق المخبر فالأفضل أن يتنزه قبل العقد و بعده يسعها المقام معه حتى يشهد على ذلك رجلان أورجل وامرأتان عدول، ولا يقبل شهادة النساء وحدهن

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

13/صفر1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب