021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پلازمہ (Plasma)کی خرید وفروخت اور اس سے ادویات بنانے کا حکم
74703جائز و ناجائزامور کا بیانعلاج کابیان

سوال

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلے میں:

ہمارا تعلق ایک دواسازکمپنی(Pharmaceutical Company) سے ہے، ہم ایک دوا کی تیاری کے حوالے سے  شرعی تفصیلات  معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ  جان بچانے والی دوا (Life saving Drug) کے قبیل سے ہے  اور اس میں  پلازمہ(Plazma) “ کو مرکزی جزو ترکیبی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔”پلازمہ “خون سے کشید کردہ ایک عنصر  ہے جس سے بہت سی جان بچانے والی ادویات تیار کی جاتی ہیں۔

انسانی خون کے مختلف عناصر ہیں جن میں مثلاً سرخ اجزاء(Red Blood Cells) پلیٹلیٹس (Platelets)اور پلازمہ(Plasma) وغیرہ شامل ہیں۔ کامل خون(Whole Blood) میں سے اگر انہیں علیحدہ کرلیا جائے اور اسٹور کرلیاجائے تو ان میں سے پلیٹلیٹس (Platelets) کوتقریباً 5 دن تک ،سرخ اجزاء(Red Blood Cells) کو تقریباً3 دن اور پلازمہ (Plasma) کو تقریباً ایک سال تک کیلیے کار آمد بنایاجاسکتا ہے۔

ان میں سے پلازمہ(Plasma) انسانی خون کا مائع جزء ہے جو کامل خون (Whole Blood) کا تقریباً 40فیصد ہوتا ہے یعنی  500 ml میں سے تقریباً 200 mlپلازمہ ہوتا ہے۔ پہلے جب مریض کو خون کی ضرورت ہو اسے انتقال خون کے دوران مکمل  خون(Whole Blood) دیا جاتاتھا مگر اب جدید تحقیق کے مطابق مریض کو خون کے صرف ٹھوس حصہ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پلازمہ(Plasma) ایک زائد مائع عنصرہے جس کی مریض کو خاص ضرورت نہیں ہوتی اور ویسے بھی ایک انسان سے کامل خون (Whole Blood) نکالے جانے کے بعد بلڈ بینک میں اگر تقریباً7گھنٹےتک پلازمہ(Plasma) کو علیحدہ کرکے منجمد(Freeze) نہ کیا جائے تو یہ خود بخود پانی کی طرح بن کر ضائع ہوجاتا ہے۔

جن مریضوں کا خون بہت زیادہ نکل رہا ہواور بند نہ ہورہا ہو تو انہیں پلازمہ(Plasma) منتقل کرکے ان کی جان بچانے کی کوشش کی جاتی ہے نیز اسے  Cryoprecipitate خون کی ایک خاص شکل میں تبدیل کرکے پیدائشی بچوں میں سے جنہیں خون بہنے کی وجہ سے جان کا خطرہ ہوا ان کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک میں اسے کامل خون(Whole Blood)سے علیحدہ کیا جاتاہے اور اس سےدوا ساز کمپنیاں انسانی زندگی بچانےوالی ادویات بناتی ہیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان ادویات کو مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں۔

بعض ممالک میں قانونی طورپر یہ اجازت ہے کہ افراد اپنے خون میں سے پلازمہ (Plasma)کا کچھ حصہ براہ راست دواسازکمپنیوں کو فروخت کریں یا پھر بلڈ کلیکشن سینٹرز/بلڈ بینک کوفروخت کریں جہاں سے یہ پلازمہ(Plasma) دواسازکمپنیاں خرید لیتی ہیں ۔اور بعض ممالک میں جہاں پلازمہ (Plasma)کی خریدوفروخت غیر قانونی ہے وہاں بلڈ کلیکشن سینٹرز/بلڈ بیکن رضاکارانہ طور پر عطیہ کئےگئےخون سے الگ کرتے ہیں اور پھر دواساز کمپنیوں سے کچھ سامان مثلاً خون جمع کرنے والے تھیلے اورخدمات مثلاً خون کے عطیہ کی خصوصی ٹیسٹینگ کے بدلے پلازمہ کا تبادلہ کرتے ہیں۔پھر دواساز کمپنیاں انسانی زندگی بچانے والی ادویات بناتی ہیں اور دنیا بھرمیں ان ادویات کو فروخت کرتی ہیں اور پاکستان میں بھی ان ادویات کو درآمد کرکےاستعمال کیا جارہا ہے۔درآمد کرنا  قیمتا مہنگا ہے اوراس پر ملک  کا قیمتی زر مبادلہ بھی خرچ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں یہ ضرورت مند مریض  کو مہنگے داموں میسر آتا ہے۔ ہمارا ادارہ مقامی سطح پر پلازمہ کی  پروڈکٹ  تیار کرنا چاہتا ہے۔

پلازما سے مختلف پروٹین(Protein) اخذ کیےجاتے ہیں اور یہ پروٹین مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس عمل کو فریکشن(Fraction) کہا جاتا ہے (یعنی مختلف حصوں کو پلازما سے باہر نکالنا)، یہ پلازما کو انفرادی پروٹین یا پلازما کے مختلف حصوں میں توڑ دیتا ہے۔ اور یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جسے ہم پاکستان میں لانا چاہیں گے جو فی الحال صنعتی پیمانے پر دستیاب نہیں ہے۔

ڈبلیو ایچ او (WHO)خون کو ضروری جان بچانے والی دوا قرار دے چکا ہے، خون سے حاصل ہونے والے خون کے اجزاء بھی لازمی ادویات(Essential Medicines) میں شامل  ہیں۔

عام طور پر بلڈ بینک خون سے بہت سے  اجزاء تیار یا اخذ کرتے ہیں۔ جیسے:سرخ خلیے(Red Cells)، پلیٹلیٹ(platelet)  ، تازہ منجمد (Fresh Frozen Plasma)پلازما وغیرہ۔ پلازما کی  جومصنوع ہم تیار  کرنا چاہتے ہیں وہ  بھی اسی قسم کی چیز ہے۔ نیزہم جو پلازمہ پروڈکٹ تیارکرنا چاہتے ہیں  وہ پلازمہ “ اور اس سے اخذ شدہ پروٹین  پر مشتمل ہوگی اور اسے منہ کے ذریعے سے جسم میں داخل  کرنے کے بجائے رَگ (Vein)کے ذریعے خون میں شامل کیا جائے گا۔

درج  بالا تفصیلات کے بعد اب پوچھنا یہ ہے کہ :

  1. کیا اس بات کی اجازت ہے کہ انسانی خون سے کشید کردہ  پلازمہ  کو بطور جان بچانے والی دوا استعمال کیا جائے؟

پلازمہ “کو دواساز کمپنیاں درج ذیل طریقوں سے حاصل کرتی ہیں:

  • بہت سے ممالک میں قانونی طور پر  اس کی اجازت ہوتی ہے کہ انفرادی شخص اپنے “پلازمہ “کو “پلازمہ “کلیکشن سینٹر یا بلڈ بینک  میں فروخت کرے،  بعدازاں کلیکشن سینٹر اس “پلازمہ “کو  دواساز کمپنی کو فروخت کردیتا ہے۔
  1. کیا کسی انفرادی شخص کو شرعا اجازت ہے کہ وہ اپنے “پلازمہ “کو فروخت کرے؟
  2. کیا “پلازمہ “کلیکشن سینٹر کو اجازت ہے کہ وہ یہ “پلازمہ “دواساز کمپنی کو جان بچانے والی ادویات کی تیاری کے لیے فروخت کرے؟
  3. کیا دواساز کمپنی کے لیے جائز ہے کہ وہ   ادویات کی تیاری کے لیےپلازمہ “کلیکشن سینٹر  یا بلڈ بینک سے پلازمہ “ کی خریداری کرے؟
  • وہ ممالک جہاںپلازمہ “کی فروخت ممنوع ہے ، وہاں بلڈ بینک ،  رضاکارانہ خون کے عطیات سے “پلازمہ“ علیحدہ کرتے ہیں۔بعدازاں وہ اس پورے پراسیس میں استعمال ہونے والے سامان(مثلاً خون جمع کرنے والے بیگ) اور اپنی خدمات (مثلاً خون کے عطیے کے وائرس سے محفوظ ہونے کو یقینی بنانے کے خصوصی ٹیسٹ) کے بدلے میں دوا ساز کمپنیوں  کے ساتھ   پلازمہ “(جو بصورت دیگر ضائع ہوجائے گا) کا تبادلہ کرتے ہیں۔(یعنی  پراسیس  کے حقیقی اخراجات دواساز کمپنی  سے وصول کرتے ہیں)
  1. کیا خون  کلیکشن سینٹر/ بلڈبینک کے لیے جائز ہے کہ وہ رضاکارانہ خون کے عطیات سے حاصل ہونے والے “پلازمہ “کا اشیاء اور خدمات کے بدلے تبادلہ کرے؟
  2. کیا خون کلیکشن سینٹر کے لیے جائز ہے کہ وہ رضاکارانہ خون کے عطیات سے حاصل ہونے والے “پلازمہ “کا  نقدی  کے بدلے تبادلہ کرے؟
  3. کیا دواساز کمپنی کے لیے جائز ہے  کہ وہ  بلڈ بینک سے پراسیس کی حقیقی لاگت کی ادائیگی پر پلازمہ حاصل کرے؟
  4. کیا دواساز کمپنی کے لیے جائز ہے کہ  وہ اشیاء، خدمات  یا نقد رقم کے تبادلے میں رضاکارانہ خون کے عطیات سے حاصل ہونے والا”پلازمہ “اور اس سے کشید کردہ پروٹین کو صنعتی پیمانے پر دواسازی اور نفع پر فروخت کے  مقصد میں استعمال  کرے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

درج بالا تفصیلی سوال میں دو امور حل طلب ہیں:(1)  پلازمہ(انسانی خون کا جز) کی خرید وفروخت کی شرعی حیثیت (2)  پلازمہ سے جان بچانے والی ادویات بنانے کا حکم۔

1- پلازمہ کی خرید وفروخت کا حکم:

قرآن کریم  میں بعض چیزوں کو صراحة حرام قرار دیا گیا ہے جن کو محرماتِ قرآنیہ کہا جاتا ہے،ان میں سے ایک خون بھی ہے ،لہذا خون کی خرید وفروخت حرام ہے۔البتہ اگر اضطراری حالت ہو یعنی مریض کو بلا معاوضہ خون نہ ملتا ہو اور اس کی جان کو خطرہ ہو تو ایسی حالت میں مریض کے لیے خون خریدنا جائز ہے،جبکہ بیچنے والے کے لیے مذکورہ معاوضہ جائز نہیں ہوگا۔

پلازمہ بھی چونکہ خون کا ایک عنصر ہے لہذا اس کی خرید فروخت جائز نہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حرام ہے۔البتہ پلازمہ کے حصول کے لیے پراسیس پر جتنے حقیقی اخراجات(Actual Cost)  اور سامان استعمال ہوئے ہیں تو پلازمہ مہیا کرتے وقت ان حقیقی اخراجات کو وصول کرنا شرعا جائز ہے۔

2- پلازمہ سے جان بچانے والی ادویات بنانے کا حکم:

پلازمہ یا کسی بھی نجس چیز سے ادویات بنانے کا  شرعی حکم یہ ہے کہ عام حالات (جب حلال اجزاء  پر مبنی ادویات موجود ہوں)میں نجس چیزوں سے ادویات بنانا شرعا جائز نہیں۔البتہ اضطراری حالت میں مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ پلازمہ یا کسی بھی نجس سے ادویات بنانا شرعا جائز ہوگا:

1-ایسی بیماری کے لیے مذکورہ دوا بنائی جائے کہ جس میں انسانی جان یا عضو فوت ہوجانے کا خطرہ ہو یا شدید مشقت ہوتی ہو،یعنی جان بچانے (Life Saving) والی ادویات ہوں۔

2- ماہر دیانت دار اور مستند ڈاکٹر کہے کہ جان بچانے والی ادویات تب مؤثر ہوسکتی ہے کہ جب اس میں پلازمہ وغیرہ شامل ہو۔

3- استعمال کیے جانے والے حرام جزو پلازمہ وغیرہ کا کوئی حلال،مؤثرمتبادل نہ پایا جاتا ہو۔اگر حرام جزو کا متبادل حلال میں سےموجود ہو تو پھر ایسی صورت میں حرام جزو بطور اجزائے ترکیبی (Ingredients) استعمال کرنا جائز نہ ہوگا۔

4- دوا کی پیکنگ پر حرام جزو کا واضح ذکر کیا جائے،تاکہ ڈاکٹر حضرات متبادل نہ ملنے کی صورت میں ہی تجویز کیا کریں۔

یہ بات واضح رہے کہ حرام اشیاء سے بنائی گئی ادویات کی خرید وفروخت کے لیے شرعا ضروری ہے کہ ان حرام نجس اجزاء کی مقدار دوسرے پاک اور حلال اجزاء کے مقابلے میں مغلوب اور کم ہو۔اگر نجس اجزاء کسی دوا کے اجزائے ترکیبی میں حلال اجزاء کے مقابلے میں کم ہو تو ادویات بنانے والی کمپنی کے لیے اس کا معاوضہ لینا جائز نہ ہوگا۔ پھر یہاں غلبہ کا مدار صفات پر ہوگا،یعنی اگر پلازمہ دوسری چیزوں کے ساتھ اس طرح مل جائے کہ پلازمہ یا کسی بھی نجس چیزکا رنگ یا بو یا ذائقہاس چیز پر غالب آجائے تو یہ غلبہ کی صورت ہے ورنہ نہیں۔

ان شرائظ کے ساتھ دواء ساز کمپنی کے لیے پلازمہ سے جان بچانے والی ادویات بنانا جائز ہے۔البتہ مریض کے لیے ایسی دواء کے استعمال کرنے کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر دوا میں مذکورہ حرام جزء کی ماہیت تبدیل یعنی Change of State نہ ہو تو ایسی صورت میں ایسے جزء پر مشتمل دواء کا استعمال درج ذیل شرائط کے ساتھ ہی حلال ہوگا:

1- دوا کو استعمال کرنے والا مریض کسی جان لیوا   یا  ایسی غیر معمولی تکلیف  میں مبتلا ہو کہ اس کا علاج نہ کرنے کی صورت میں غیر معمولی حرج ومشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہو۔

2- کوئی ماہر اور دیانت دار ڈاکٹر اس مرض کے لیے مذکورہ دوا ء تجویز کردے۔

 3- اس مرض کی حرام اجزاء سے پاک کوئی اور دواء موجود نہ ہو  یا موجود ہو لیکن اس سے فائدہ نہ ہوتا ہو  یا ہوتا ہو مگر اس کا حصول بہت مشکل ہو۔نیز اگر اس مخلوط کا خارجی استعمال انسانی بدن پر ہو تو نماز کے وقت دھونا اور باقاعدہ پاک کرنا ضروری ہے۔(مأخذه:تبویب،فتوی نمبر: 57982/56)        واللہ أعلم بالصواب

حوالہ جات
  1. (سورة المائدة:3)
"حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ"
(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین10/7،دار المعرفة،بیروت)
 "وشرعا: (مبادلة شئ مرغوب فيه بمثله) خرج غير المرغوب كتراب وميتة ودم.
( قوله : مرغوب فيه ) أي ما من شأنه أن ترغب إليه النفس وهو المال ؛ ولذا احترز به الشارح عن التراب ،والميتة،والدم فإنها ليست بمال."
(بدائع الصنائع: 553/6،دار الکتب العلمیة،بیروت)
"ولا ينعقد بيع الميتة والدم ؛ لأنه ليس بمال."
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي -ج 13 / ص 198)
"(لم يجز بيع الميتة والدم) لانعدام المالية التي هي ركن البيع ،فإنهما لا يعدان مالا عند أحد، وهو   
 من قسم الباطل."
2- رد المحتار - (ج 20 / ص 297)
"مطلب في التداوي بالمحرم: ( قوله ورده في البدائع إلخ ):قدمنا في البيع الفاسد عند قوله:ولبن امرأة أن صاحب الخانية والنهاية اختارا جوازه إن علم أن فيه شفاء ،ولم يجد دواء غيره قال في النهاية : وفي التهذيب:يجوز للعليل شرب البول ،والدم،والميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن فيه شفاءه، ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه ، وإن قال الطبيب:يتعجل شفاؤك به ،فيه وجهان . وهل يجوز شرب العليل من الخمر للتداوي؟ فيه وجهان. وكذا ذكره الإمام التمرتاشي،وكذا في الذخيرة وما قيل :إن الاستشفاء بالحرام حرام غير مجرى على إطلاقه ،وأن الاستشفاء بالحرام إنما لا يجوز إذا لم يعلم أن فيه شفاء،أما إن علم وليس له دواء غيره يجوز.ومعنى قول ابن مسعود رضي الله عنه: لم يجعل شفاؤكم فيما حرم عليكم يحتمل أن يكون قال ذلك في داء عرف له دواء غير المحرم لأنه حينئذ يستغني بالحلال عن الحرام، ويجوز أن يقال تنكشف الحرمة عند الحاجة، فلا يكون الشفاء بالحرام،وإنما يكون بالحلال ا هـ نور العين من آخر الفصل التاسع والأربعين."
المحيط البرهاني في الفقه النعماني - (ج 10 / ص 243)
"والزيت إذا اختلط به ودك الميتة إن كانت الغلبة للحرام، أو كانا على السواء لا يجوز الانتفاع به
بوجه من الوجوه، وإن كانت الغلبة للزيت لا يحل الأكل، ويحل ما عداه من الاستعمال، ودبغ الجلد به والبيع شرط أن يبين عنده. "
الفقه الإسلامي وأدلته - (ج 4 / ص 233)
" والصحيح عند الحنفية: هو جواز بيع المتنجس كالزيت الذي خالطته النجاسة."
المحيط البرهاني في الفقه النعماني - (ج 4 / ص 280)
" وهذا لأن العبرة للغالب والمغلوب ساقط الاعتبار بمقابلته."
مجلة الأحكام العدلية - (ج 1 / ص 20))
المادة 42 ) : العبرة للغالب الشائع لا للنادر .

  ابرار احمد  صدیقی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 ۲۹/۰۴/١۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ابراراحمد بن بہاراحمد

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے