021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد ومدرسہ کے لئے وقف شدہ زمین کو بدلنا
78495وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ ہمیں ایک بھائی نے ایک جریب زمین مسجد اور مدرسے کے لیے وقف کردی،یہ مین روڈ پر اس بھائی کی زمین کا فرنٹ ہے،باقی زمین اس کے پیچھے ہے،اس پر مسجد اور مدرسے کے کچھ کمرے بنائے گئے ہیں۔

اب وہ واقف مدرسے کے مہتمم سے اس وقف زمین میں اپنے باقی زمین کی طرف جو اس وقف زمین کی پچھلی طرف ہے راستہ مانگ رہا ہے اور اس کا عوض بھی دگنا دے رہا ہے وقف زمین کے پچھلے حصے کی طرف جو وقف زمین کو چوکور بنانے کے لیے ضروری بھی ہے کہ اس میں کمرے سیدھے آجائیں گے اور یہ راستہ اس پتلی گلی میں مانگ رہا ہے جو چار دیواری اور مسجد کے دیوار کے ما بین رہ گئی ہے  اور کوئی خاطر خواہ فائدہ بھی نہیں ہے اس ٹکڑے کا تو کیا اس واقف کو راستہ دینا اور اس کا ڈبل عوض بصورت زمین لینا از روئے شریعت جائز ہے؟

تنقیح:

اس جگہ کی لوکیشن جسے واقف بطور راستہ مانگ رہا ہے کچھ یوں ہے کہ یہ جگہ مسجد ومدرسے کی ایک جانب لمبی سے گلی کی صورت میں ہے،مسجد و مدرسے کا راستہ الگ ہے،البتہ اسے راستہ بنانے کی صورت میں مدرسے کے داہنی جانب رہنے والے نمازی بھی اسے بطور راستہ استعمال کرسکیں گے۔

اس گلی کا جو حصہ مدرسے کی حدود میں واقع ہے وہاں بیسمنٹ میں مدرسے کے لیے تعمیر بھی کی گئی ہے،یہ جگہ واقف کو دینے کی صورت میں اسے ختم کرنا پڑے گا۔

نیز فی الحال مدرسے اور مسجد کو اسے راستہ بنانے کی ضرورت نہیں اور راستے کی ضرورت صرف واقف کو ہے،مفاد عامہ اس سے وابستہ نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب واقف وقف کرتے وقت اس کی تصریح کردےتب استبدال وقف جائز ہوتا ہے ،لہذا مذکورہ صورت میں اگر واقف نے وقف کرتے وقت اس کی تصریح کی تھی تو پھر مذکورہ بالا طریقے سے تبادلہ جائز ہوگا،لیکن اگر وقف کرتے وقت اس قسم کی کسی شرط کی تصریح نہیں کی گئی تو پھر وقف شدہ زمین کا دوسری زمین سے تبادلہ درست نہیں ہوگا۔

تاہم اگر مسجد کے احاطے کا یہ حصہ فی الحال مسجد کی ضرورت سے زائد ہو تو اسے مصالح مسجد کے لئے واقف کوکرایہ پر دیا جاسکتا ہے،اس کے بعد جو آمدن ہو اسے مسجد کی ضروریا ت پر خرچ کیا جائے،اس میں مسجد کا بھی فائدہ ہوگا،بیسمنٹ میں بنی مدرسے کی تعمیر بھی متاثر نہیں ہوگی،مستقبل میں اس جگہ پر ملکیت کے دعوی کا امکان بھی نہیں رہے گا اور واقف کی ضرورت بھی پوری ہوتی رہے گی۔

حوالہ جات
"صحيح البخاري" (4/ 10):
"عن ابن عمر رضي الله عنهما أن عمر تصدق بمال له على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان يقال له ثمغ وكان نخلا، فقال عمر: يا رسول الله، إني استفدت مالا وهو عندي نفيس، فأردت أن أتصدق به، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «تصدق بأصله، لا يباع ولا يوهب ولا يورث، ولكن ينفق ثمره»، فتصدق به عمر".
"رد المحتار"(4/283):
"مطلب في استبدال الوقف وشروطه قوله ( وجاز شرط الاستبدال به الخ ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه الأول أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا والثاني أن لا يشرط سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه والثالث أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار…".
"البحر الرائق " (5/ 233):
"ولو كانت الأرض متصلة ببيوت المصر يرغب الناس في استئجار بيوتها وتكون غلة ذلك فوق غلة الزرع والنخل كان للقيم أن يبني فيها بيوتا فيؤاجرها لأن الاستغلال بهذا الوجه يكون أنفع للفقراء".
"الفتاوى الهندية" (5/ 320):
"وسئل الخجندي عن قيم المسجد يبيح فناء المسجد ليتجر القوم هل له هذه الإباحة؟ . فقال: إذا كان فيه مصلحة للمسجد فلا بأس به إن شاء الله تعالى قيل: له لو وضع في الفناء سررا فآجرها الناس ليتجروا عليها وأباح لهم فناء ذلك المسجد هل له ذلك فقال: لو كان لصلاح المسجد فلا بأس به إذا لم يكن ممرا للعامة".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

17/جمادی الاولی1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے